عقل مند مہاد نامتا کی دلچسپ داستان

نوٹ: پاکستان میں ایک زمانہ تھا جب بچوں کے لیے رسالے اور کتابیں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور انھیں پڑھنے کا رحجان بھی تھا۔ خاص طور پر متوسط طبقے کا شاید ہی کوئی گھر ایسا ہوتا تھا جہاں بچوں کا کوئی رسالہ ہر ماہ نہ آتا ہو۔ لیکن ستر اور اسّی کی دہائی کے دوران کچھ ایسا ہوا کہ آہستہ آہستہ بچوں کے رسالے اور بچوں کے لیے شائع ہونے والی کتابیں بند ہونے لگیں اور اس کے ساتھ بچوں کا ادب زوال پذیر ہو کر آخری  سسکیاں لینے لگا۔ اس صورتحال کے تناظر میں بچوں کے ادب کے فروغ اور قارئین کو اردو کے کلاسیکی ادب سے روشناس کرانے کے لیے روشنی میگزین نے”بچوں کا ادب” کے نام سے اس سلسلے کا آغاز کیا ہے، جس کے ذریعے اردو شہ پاروں کا انتخاب منظر عام پر لایا جائے گا، اس ماہ لوک داستانوں و کہانیوں کے انسائیکلوپیڈیا سے عقل مند مہادنامتا  کی دلچسپ داستان قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)       

کبھی کہیں ایک گاؤں تھا۔  گاؤں والے بڑے سیدھے، بھولے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بے وقوف تھے۔  اسی گاؤں میں ایک بوڑھا بھی رہتا تھا جو ‘مہادنامتا’ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ مہاد نامتا کے معنی سمجھ دار  یا عقل مند کے ہیں۔  جب کوئی دیہاتیوں کی سمجھ میں نہ آتی تو اسے پوچھنے کے لئے وہ اس کے پاس جاتے۔  مہادنامتا لمبا تڑنگا،  طاقت ور آدمی تھا۔  اس کے سر کے بال بڑے لمبے تھے جنہیں اس نے ایک جوڑے کی شکل میں باندھ کر کچھوے کی ہڈی کی کنگھی لگا رکھی تھی۔  ایسا لگتا تھا جیسے اس کے سر پر تاج ہو۔  اس کی داڑھی سفید سی اور لمبی تھی۔  دیکھنے میں وہ سادھو معلوم ہوتا تھا۔  دیہاتی اسے بڑا ہی عقل مند آدمی سمجھتے تھے۔

اس سادھو کے پانچ چیلے یعنی شاگرد بھی تھے۔  یہ پانچوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ ان کے جیسے نام تھے ویسی ہی ان کی شکلیں بھی تھیں۔  پہلے کانام “آدھا ناریل”  تھا۔ اس کا چہرہ چپٹا گول تھا۔ دوسرے کو “کھجور کا پیڑ”  کہتے تھے۔  اس کا قد لمبا، جسم بے حد دبلا پتلا تھا۔ تیسرے کو “توندو” کہتے تھے۔ اس کاقد چھوٹا اور پیٹ بہت ہی بڑا تھا۔  چوتھے کو “بڑمنھا”  کہا جاتا تھا۔  اس کا تھوتھن ہمیشہ لٹکا رہتا تھااور گونگا معلوم ہوتاتھا۔  پانچویں یعنی “پتلی کمر”  کی شکل بالکل مربھکوں جیسی تھی،  بالکل ہڈی چمڑا۔  سادھو جہاں بھی جاتا یہ چیلے اس کی دم سے لگے رہتے۔کسی کے ہاتھ میں اس کی چھتری ہوتی، کسی کے ہاتھ میں پان کا تھیلا، کوئی کھجور کے پتوں پر لکھی ہوئی پوتھی بغل میں دبائے ہوتا اور کوئی کچھ اور لئے ہوتا۔  پوتھی سادھو کی عقل مندی کی باتیں لکھنے کے لئے ساتھ ہوتی تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے۔

سادھو کو بڑادکھ تھا کہ اس کے صرف پانچ چیلے ہیں۔  ایک روز اس نے اپنے چیلوں سے کہا: آؤ، چلیں! کچھ اور چیلے بنائیں۔

دوسرے روز مہادنامتا اپنے پانچوں چیلوں کے ساتھ نئے چیلوں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔  چلتے چلتے سادھو کو اپنا سر کچھ ہلکا لگا۔  اس نے سر پر ہاتھ پھیرا توپتہ چلا کہ اس کی کنگھی راستے میں کہیں گر گئی ہے۔  اس نے تعجب سے کہا: میری کنگھی کہاں ہے؟

جواب میں پانچوں چیلوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا: ہم نے اسے راستے میں گرتے دیکھا تھا۔

ارے احمقو! گرتے دیکھا تھا تو اٹھا کیوں نہ لیا۔  سادھو غصے میں بڑبڑایا۔

آدھے ناریل نے بڑے ادب سے جواب دیا: آپ نے ہمیں کبھی یہ بات نہیں بتائی تھی کہ ایسے موقعوں پر ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ اگر بتایا ہوتا تو ہم اسے اپنی پوتھی میں لکھ لیتے اور اس پر عمل بھی کرتے۔

خیر، آئندہ گری ہوئی ہر چیزکو اٹھا لینا۔ سادھو نے کہا

آدھے ناریل نے جھٹ پوتھی نکال کر سادھو کی بات اس میں لکھ لی۔  پھر پانچوں کنگھی کی تلاش میں واپس میلوں تک چلے گئے اور کنگھی ڈھونڈ ہی لائے۔  سادھو کنگھی پا کر خوش ہو گیا۔

چلتے چلتے مہادنامتا نے گردن گھمائی تو اس نے دیکھا کہ اس کا ہر چیلا ایک ایک بھاری گٹھری اٹھائے چلا آرہا ہے۔  یہ دیکھ کر سادھو نے ان سے پوچھا: ان گٹھریوں میں کیا ہے؟

انہوں نے بڑے فخر سے جواب دیا: آپ کے کہنے کے مطابق ہم لوگوں نے ہر وہ چیز جو راستے میں پڑی دیکھی اٹھا لی ہے۔

ارے بے وقوفو! تم میری بات بالکل ہی نہ سمجھ سکے۔  میں نے تو یہ کہا تھا کہ جو چیز راستے میں مجھ سے گرے اسے اٹھا لیا کرنا۔  سادھونے غصے سے کہا۔  چیلوں نے سادھو کی اس بات کو بھی پوتھی میں لکھ لیا۔  شام کو وہ سب ایک جھونپڑے میں جو سڑک کے کنارے خالی پڑا تھا، رات بسر کرنے کے لئے ٹھہر گئے۔

پتلی کمر ایک درخت پر چڑھ گیا تاکہ آگ جلانے کے لئے کچھ شاخیں کاٹ لے۔ بے وقوف تو تھا ہی، اسی شاخ کو کاٹنے لگا جس پر خود بیٹھا ہوا تھا۔  ایک راہی نے اس سے کہا: یہ کیا کر رہے ہو؟  خبردار، ورنہ شاخ کے ساتھ تم بھی نیچے چلے آؤ گے۔

جاؤ اپنا کام کرو۔  تم کون ہوتے ہو ہمارے کام میں دخل دینے والے؟ مہادنامتا نے غصے سے کہا۔ ابھی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ وہی ہوا جو راہی نے کہا تھا۔  وہ شاخ کے ساتھ خود بھی دھڑام سے نیچے آ رہا۔  خیریت ہوئی کہ زیادہ چوٹ نہیں آئی۔

یہ اجنبی یقینا ایک ہوشیار نجومی ہے۔ آدھے ناریل نے کہا۔ دیکھا نہیں، ادھر اس کے منہ سے بات نکلی، ادھر پوری ہو گئی۔

بے شک تم ٹھیک کہتے ہو۔  سادھو نے کہا۔ جاؤ اور اس سے پوچھ کر آؤ کہ میں کب مروں گا۔

ٹھہرو!میاں نجوی ٹھہرو! یہ توبتاتے جاؤ کہ ہمارے سادھو مہاراج کب مریں گے؟  کہتے ہوئے پانچوں چیلے نجومی کے پیچھے بھاگنے لگے۔ نجومی نے منہ موڑ کر جواب میں چلا کر کہا: بے وقوفو! جب تمہارے سادھو مہاراج کا سر ٹھنڈا ہو گا۔  یہ کہہ کر نجومی تیزی سے آگے بڑھ گیا۔

نجومی نے جو کچھ کہا تھا چیلوں نے واپس آ کر سادھو کو بتادیا۔  سادھو نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بڑے اطمینان سے اپناسر ہلایا اور کہا: سر ٹھنڈا تو اسی وقت ہو گا جب میں اسے بھگوؤں گا۔ موت اب میرے اختیار میں ہے۔  نہ میں سر بھگوؤں گا نہ موت آئے گی۔ ہاہا،ہاہا

لیکن رات بھر نجومی کے الفاظ اس کے دماغ میں گھومتے رہے اور وہ ذرا بھی نہ سو سکا۔  صبح کو اس نے نئے چیلوں کی تلاش کا ارادہ ترک کر دیا اوراپنے پانچوں چیلوں کے ساتھ گھر لوٹ آیا۔ اس روزکے بعد اس نے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا کہ سر کسی طرح بھیگنے نہ پائے۔  اب وہ بھی گاؤں والوں کو، جو اس سے مشورہ کرنے کے لئے آتے تھے، اسی طرح مشورہ دیتا جیسے پہلے دیا کرتا تھا۔

ایک دن اتفاق سے ایک پیاسی بکری کسی کسان کے گھر کے صحن میں آگئی اور پانی پینے کے لئے مٹی کے ایک گھڑے میں اپنا سر ڈال دیا۔  بدقسمتی سے بکری کاسر اس میں پھنس گیا۔ وہ گھبرا کر زور زور سے میمائی، ادھر ادھر بھاگنے لگی۔ اسی حالت میں کبھی وہ آگے جاتی اور کبھی پیچھے۔  اسے دیکھنے کے لئے کسانوں اور پڑوسیوں کے ٹھٹ لگ گئے۔ وہ کہنے لگے: ہمیں گھڑے اور بکری دونوں کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔ لیکن کیا کرنا چاہیے؟  یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ آخر کار صلاح یہ ٹھہری کہ سب سادھو مہاراج کے یہاں چلیں اور ان سے پوچھیں۔  مہادنامتا نے ہمدردی سے ان کی باتیں سن کرپہلے تو سر ہلایا پھر کہا: معاملہ واقعی ٹیڑھا ہے۔  چلو چلتا ہوں تاکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں۔  چنانچہ سادھو مہاراج ہاتھی پر سوار ہو کر چلے۔  کسان کے گھر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ صحن میں داخل ہونے کا دروازہ چھوٹا ہے اور ہاتھی اس میں سے گزر نہیں سکتا۔ انہوں نے حکم دیا کہ دیوار گرا دی جائے۔  دیوار جب گر گئی تو وہ ہاتھی پر سوار اندر داخل ہو گئے۔

یہ دیکھ کر کہ بکری کا سر گھڑے میں پھنسا ہوا ہے اور کسی طرح نہیں نکل سکتا، سادھو مہاراج بولے: کوئی بات نہیں، بکری کا سر کاٹ دو تاکہ گھڑا ٹوٹنے سے بچ جائے۔

سادھو کا یہ کہنا تھا کہ سب پکار اٹھے، کاٹ دو، کاٹ دو، بکری کا سر کاٹ دو۔

کسان نے تیز چھڑی کے ایک ہی وار سے بکری کاسردھڑ سے الگ کر دیا۔

مگر سرتو گھڑے کے اندر ہی رہ گیا ہے۔  کسان نے پریشانی کے لہجے میں سادھو مہاراج سے کہا۔

گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔  گھڑے کوتوڑ دو، سر خودبخود باہر آجائے گا۔  سادھو مہاراج نے جواب میں کہا۔

کسی نے گھڑا توڑ دیا۔ ہر شخص سادھو مہاراج کی عقل مندی کے گن گانے لگا۔  لوگ بڑی حیرت سے مہادنامتا کو دیکھنے لگے کہ دیکھیں وہ اس تنگ جگہ سے نکلنے کے لئے جہاں ہاتھی گھوم بھی نہیں سکتا ہے کیا کرتے ہیں۔

مہادنامتا نے دیر تک سوچنے کے بعد کہا: دوسری دیوار توڑ دو کیونکہ اس صورت میں ہاتھی یہاں سے نکل کر مجھے گھر لے جا سکتا ہے۔

لوگوں نے آن کی آن میں دوسری دیوار گرا دی اور جب ہاتھی وہاں سے چلا تو سب ہی چپکے چپکے ایک دوسرے سے کہنے لگے: واقعی یہ بڑا آدمی ہے۔ عقل مندوں میں سب سے بڑا عقل مند۔

مہادنامتا ہاتھی پر سوار گھر کی طرف چلا۔  ایک دریا کے قریب پہنچ کر مہادنامتا نے سوچا کہ اگر دریا میں ایک غوطہ لگا لیا جائے تو ساری تھکن دور ہو جائے گی۔ دن اتنا گرم تھا کہ اسے یاد ہی نہ رہا کہ اسے سر خشک رکھنا ہے۔  اس نے ہاتھی سے اتر کر دریا میں غوطہ لگایا اور باہر نکل آیا۔  پانی اس کے سر سے ٹپک رہا تھا۔  سادھو کے بھیگے ہوئے سر کو دیکھ کر اس کے چیلوں نے چلا کر کہا: اے عقل مند انسان! آپ کا سر بھیگ گیا ہے۔

مہادنامتا نے سر پر ہاتھ پھیرا اور سر کو واقعی بھیگا دیکھ کر خوف سے کانپنے لگا۔ یہ سوچ کر کہ مرنے کا وقت آگیا ہے، وہ دریا کے کنارے چپ چاپ لیٹ گیا جیسے مر ہی گیا ہو۔  اس کے چیلے اس کے گرد بیٹھ کر دیرتک روتے رہے، پھر چیلوں نے ایک ارتھی بنائی اور اس پر اسے لٹا کر سفید چادر ڈال دی۔  پھر ارتھی اٹھا کر قبرستان کی طرف چلے۔ ایک چوراہے پر پہنچ کر اس خیال سے کہ معلوم نہیں کون سی سڑک قبرستان کی طرف جاتی ہے، وہ ٹھہر گئے۔ کوئی کچھ کہتا تھاکوئی کچھ، یہاں تک کہ نوبت تکرار تک پہنچ گئی۔  اب مہادنامتا سے چپ نہ رہا گیا۔  غصہ سے سر اٹھاکر ہاتھ سے ایک سڑک کی طرف اشارہ کیا اور آہستہ سے کہا: جب میں زندہ تھا تو اس راستے سے قبرستان جایا کرتا تھا۔  وہ سوچ کر کہ مردہ بولنے لگا ہے، چیلے اتنے ڈرے کہ ارتھی کو پھینک پھانک وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

سب کے سب احمق۔ کہتا ہوا مہادنامتا آہستہ آہستہ اٹھ کھڑا ہوا اور گھر کی طرف چل دیا۔  مہادنامتا عرصے تک زندہ رہا۔  اس کی ان عقل مندیوں یا حماقتوں کے باوجود اس کے چیلوں کی وفاداری میں رتی بھر فرق نہ آیا اور جیتے جی پانچوں چیلے اس کی باتوں کو سچ جانتے اور ان پر عمل کرتے رہے اور مہادنامتا زندگی بھر ان کو مشورے دیتا رہا۔  البتہ یہ اس نے ضرور کیا کہ پھر کبھی اپنے سر کو پانی سے تر نہیں کیا۔

(لوک داستانوں و کہانیوں کا انسائیکلوپیڈیا سے انتخاب)

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •