کتب خانہ

نوٹ: باغ و بہار میر امن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو اُنہوں نے فورٹ ولیم کالج میں محسن اردو جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔  داستانوں میں جو قبول عام باغ و بہار کے حصے میں آیا ہے وہ اردو کی کسی اور داستان کو نصیب نہیں ہوا۔  عوام اور خواص دونوں میں یہ داستان آج بھی اتنی ہی مقبول ہے جتنی آج سے پونے دو سو برس پہلے تھی۔  اس کی غیر معمولی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اس کا دلکش اسلوب اور دلنشین انداز بیان ہے جو اسے اردو زبان میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔ روشنی میگزین کے سلسلے کتب خانہ میں  تبصرے کے لیے اس ماہ ہم نے باغ و بہار  کا انتخاب  کیا ہے۔ (ادارہ)

باغ وبہار: اپنے عہد کے تہذیبی احوال و آثار کی مستند تاریخی دستاویز

تحریر: نعیم احمد ناز

یوں تو باغ و بہار ایک داستان ہے لیکن اس کی حیثیت اردو کے افسانوی ادب میں ایک سنگ میل کی سی ہے اور اسے زبان و ادب کے ایک شاہکار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ اپنے زمانے کی اجتماعی زندگی کی ایک مکمل دستاویز ہے۔ یہ اپنے عہد کے معاشرے اور تہذیبی احوال و آثار  کا مستند تاریخی ریکارڈ ہے۔  اس قصے کا تمام تر ماحول بھی دلی کا ہے اگر میرامن غیر ممالک کا بیان بھی کرتے ہیں تو وہاں کی تصویر کشی اس انداز سے ہوتی ہے گویا دلی کے کسی محلے کا بیان ہو رہا ہو، قصے کے تمام کردار بھی دہلوی دکھائی دیتے ہیں اور یوں اس پوری داستان میں ہمیں جگہ جگہ دلی کی معاشرت کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ “باغ و بہار”  میں دو قسم کے کردار ملتے ہیں، مرد کردار اور نسوانی کردار۔  مردانہ کرداروں میں چاروں درویشوں کے علاوہ آزاد بخت اور خواجہ سگ پرست بھی شامل ہیں۔  چاروں درویش دراصل کہانی کے اصل ہیرو ہیں۔

پہلا درویش
پہلا درویش یمن کے ملک التجار کا بیٹا تھا۔  چودہ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا۔ اور پھر اپنی نادانیوں کی وجہ سے اپنی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھا اور اس کے دل سے احساس خودی اور اعتماد عمل جاتا رہتا ہے اور اپنی بہن کے ٹکڑوں پر پلتا ہے۔ غیرت دلانے پر دمشق روانہ ہوتا ہے، وہاں اسے ایک زخمی شہزادی ملتی ہے جس کا علاج وہ بڑی محنت سے کرتا ہے اور اس کا ہر حکم بجا لاتا ہے لیکن شہزادی اس کی پروا نہیں کرتی مگر وہ خوشامد کرتا رہتا ہے۔ دراصل خوشامد اس کی عادت بن چکی ہے۔ اس کے عشق میں چھچھورا پن ہے۔ اس کے علاوہ درویش مستقل مزاجی کی صفت سے بھی محروم ہے اس لیے یوسف سوداگر سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ پہلے درویش کے کردار میں مردانگی نام کی چیز نہیں۔ یہ ایک مجہول اور بودا کردار ہے جو فرماں برداری،  خوشامدی فطرت، عجز و انکسار کے باوجود دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والا یہ تاجر زادہ کسی مرحلے پر بھی شخصی وقار، انا پسندی یا خود داری کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس کوتاہ بین، کم کوش اور نکمے شخص کی شادی شہزادی سے ہو جانا ایک اتفاق ہے اور جنگل میں اُس کو کھو دینا اس کی بے تدبیری، عاقبت نا اندیشی اور بد نصیبی کا ثبوت ہے۔

دوسرا درویش
دوسرا دویش فارس کا شہزادہ ہے، چودہ سال کی عمر میں حاتم طائی اس کا اسوہ بن جاتا ہے اور وہ زندہ جاوید رہنے کے لیے حاتم طائی کی پیروی شروع کر دیتا ہے۔ شہزادہ مذہبی ذہن رکھتا ہے اور سخاوت اس کے نزدیک روحانی ترقی کا ذریعہ تھی۔ پھر جب ایک فقیر سے بصرے کی شہزادی کا ذکر سنتا ہے تو بصرہ روانہ ہو جاتا ہے اور جب شہزادی کو دیکھ لیتا ہے تو اسے اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ لیکن یہ شہزادہ دوسرے شہزادوں کے مقابلے میں اتنا خوشامدی نہیں اور وہ شہزادی کی خطرناک شرط کو بھی فوراً قبول کر لیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہادر، عالی ہمت اور مہم جوئی سے نہیں گھبراتا۔ شہزادہ نیم روز کا راز معلوم کرنے کے بعد اس کے درد کا درماں ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔

تیسرا دویش
ملک عجم کا شہزادہ ہے۔  اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی اولاد ہے۔  عاشق زار ہے اور عشق کا زخم خوردہ ہے۔  دوسرے درویشوں کی طرح یہ بھی خوشامدی ہے۔ کہیں کہیں جرات اور ذہانت کا مظاہرہ بھی کرتا ہے مگر عشق کے میدان میں کوئی معرکہ سر کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔  اکیلا ہی جب ہرن کا پیچھا کرتا ہے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ ایک مہم جو اور نڈر اور پر از اعتماد نوجوان ہے۔  اس کے علاوہ درویش سے جس طرح وہ فرنگ کی شہزادی کا حال معلوم کرتا ہے وہ درویش کی متجسّس طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔ شہزادی اور  بہزاد خان جب ڈوبنے لگتے ہیں تو وہ انہیں کنارے پر کھڑا دیکھتا رہتا ہے۔  اس لیے درویش عشق کے معاملے میں پھسڈی ہے۔ اس کی محبت میں کوئی وقار نہیں۔

چوتھا درویش
چین کے بادشاہ کا ولی عہد ہے۔  ناز سے پرورش پائی اور اچھی تربیت ہوئی لیکن بیگمات اور خواص کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے عقل و شعور سے عاری ہے اور بے باکی اور جوانمردی نام کی کوئی شے اس کے اندر نہیں ملتی۔  بلکہ کم ظرفی اور بے وقوفی کے آثار نمایاں ہیں۔ عملی دنیا سے زیادہ خیالی دنیا کا باسی ہے۔  مبارک نامی حبشی غلام پر اسے بے حد اعتبار ہے۔  ہر کڑے وقت اور مشکل مرحلے پر شہزادہ کسی جرات یا استقلال کا مظاہرہ کرنے کی بجائے مبارک حبشی سے رجوع کرتا ہے۔  شہزادہ شکی مزاج بھی ہے اور اپنے جاں نثار غلام پر بھی شک کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔  شہزادے کی عاقبت نا اندیشی اس وقت انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب وہ ملک صادق جیسے طاقتور جن اور اپنے باپ کے مخلص دوست کے ساتھ جنگ آزما ہو کر شکست سے دوچار ہوتا ہے۔  مختصر یہ کہ چوتھے درویش کی نکیل مبارک حبشی کے ہاتھ میں ہے جو اس کا عقل کل ہے اور جو اس کا واحد سایہ اور سہارا ہے۔

بادشاہ آزاد بخت
آزاد بخت روم کی سلطنت کا تنہا وارث ہے۔  اسے دنیا کی ہر آسائش اور سہولت میسر ہے، وہ نیک ہے، عبادت گزار ہے اور سخی ہے۔  ان سب کے باوجود وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے اکثر پریشان رہتا ہے اور چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر وہ اقتدار و اختیار سے لا تعلق ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے اور اولاد کے لیے جب وہ کسی خانقاہ میں جاتا ہے تو وہاں اُس کی ملاقات درویشوں سے ہوتی ہے جو باری باری ان کو اپنی کہانی سناتے ہیں۔ طبیعت میں عجلت پرست واقع ہوا ہے۔ اس لیے بغیر جرم ثابت ہوئے اپنے وفادار وزیر کی موت کا حکم دیتا ہےاور بوڑھے سگ پرست سے کم سن شہزادی کی شادی کروانا اگر ایک طرف رحمدلی کا مظہر ہے تو دوسری طرف کم سن شہزادی کے ساتھ جبر و زیادتی کا بھی آئینہ دار ہے۔  آزاد بخت کی داستان میں دوسرے درویشوں کی طرح عشق کا عنصر شامل نہیں ہے۔  اس کی مہم جوئی کی جہت دوسرے درویش کے برعکس مختلف ہے۔ آزاد بخت کا کردار مرکزی اور بنیادی ہے اور قاری کی دلچسپی کا باعث، زندگی کے زیادہ قریب اور بھر پور ہے۔

خواجہ سگ پرست
یہ کردار بہت شریف اور بے وقوف ہے۔  معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دنیا داری اور عقل بالکل نہیں ہے۔ اپنے بھائیوں سے دغا پر دغا کھاتا ہے مگر پھر بھی انہیں اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔  اس کے بھائی شیطان صفت ہیں۔ اپنے بھائیوں سے دھوکا کھانے کے باوجود بار بار نیکی کرنا اس کی نیکی و شرافت اور برداشت کی نشانی ہے۔  بھائیوں سے شدید محبت ہے لیکن جب وہ بدلہ لینے پر آتا ہے تو ایسی سزا دیتا ہے جو کسی نے نہ دیکھی اور نہ سنی۔  اس کے ساتھ ساتھ قصے کے چار درویشوں کی مانند خواجہ سگ پرست خوشامدی بھی ہے اور زیر باد اور سراندیپ کی شہزادی کے سامنے خوشامد کرتا اور گڑگڑاتا ہے۔ دوسرے درویشوں کی طرح جنس اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اس لیے بوڑھا ہونے کے باوجود کم سن شہزادی سے شادی کے لیے بے تاب ہے۔ لیکن مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود چاروں درویشوں سے یہ کردار مختلف اور منفرد ہے۔

باغ و بہار کے نسوانی کرداروں میں ماہ رو، وزیر زادی، سراندیپ کی شہزادی اور بصرے کی شہزادی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

ماہ رو
ماہ رو پہلے درویش کے قصے کی ہیروئن ہے۔  جسے میرامن نے نہایت خوبصورت، پری پیکر اور جاہ وحشم پر نازاں دکھایا ہے۔ احساس برتری کے باعث اس میں تمکنت اور رکھ رکھاؤ ہے لیکن آخر وہ جذبہ عشق کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتی ہے تو اس میں قدرے نرمی اور ملائمت پیدا ہو جاتی ہے۔  جونہی وہ عشق میں ناکام ہوتی ہے تو پھر سے بپھری ہوئی شیرنی بن جاتی ہے۔  اس کے مزاج میں تضاد پایا جاتا ہے۔  وہ بیک وقت رحمدل بھی ہے اور قاہر بھی، عشق بھی کرتی ہے اور بدنامی سے بھی خوفزدہ ہے، وہ دانش مند بھی ہے اور جذبہ دل کے ہاتھوں مغلوب بھی۔  وہ مذہب پر یقین بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر مذہبی احکام سے انحراف بھی کرتی ہے۔

وزیر زادی
وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے قصے کی ہیروئن ہے۔  یہ قصہ بادشاہ آزاد بخت کی زبانی بیان ہوا ہے۔  وزیر زادی کی شادی خواجہ سگ پرست سے اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گڑیا کھیلنے کے دن تھے اور خواجہ سگ پرست کی عمر پچاس سال تھی، لیکن وزیر زادی بادشاہ کا حکم بجا لاتے ہوئے شادی کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔  وزیر زادی خواجہ سگ پرست کے مقابلہ میں ایک کمسن لڑکی ہے جس کی شادی خواجہ سگ پرست سے کر دی جاتی ہے اور وہ اس شادی کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیتی ہے اور اف تک نہیں کرتی۔

سراندیپ کی شہزادی
سراندیپ کی شہزادی خواجہ سگ پرست کے قصے کا کردار ہے جسے میر امن نے خالص ہندوستانی مزاج کی حامل ہندو راج کماری کے روپ میں دکھایا ہے۔  وہ کھلے ماحول کی پروردہ ہے جہاں پردہ کرنے کا رواج نہیں۔ وہ مردوں کی طرح آزادانہ جنگلوں میں گھومتی اور شکار کرتی پھرتی ہے۔

بصرے کی شہزادی
بصرے کی شہزادی دوسرے درویش (شہزادہ فارس) کی محبوبہ ہے جو آخر میں اس کی بیوی بن جاتی ہے۔  شہزادی کی چھ بہنیں تھیں۔  ایک روز بادشاہ نے انہیں کہا کہ خدا کا شکر کرو کہ تم شہزادیاں ہو۔  اگر میں بادشاہ نہ ہوتا تو تم بھی شہزادیاں نہ ہوتیں۔  یہ سارا کروفر میرے ہی طفیل ہے۔  ان میں سے ایک (زیر تذکرہ) شہزادی، جو مذہب پر پورا یقین رکھتی ہے اس بات کی قائل تھی کہ جو کچھ ہوتا ہے تقدیر کے تابع ہوتا ہے۔  اس نے اپنے باپ (بادشاہ) کی اس بات کو مسترد کر دیا اور سب کچھ تقدیر اور اللہ کی دَین قرار دیا۔ اس کی پاداش میں شہزادی کو جنگل میں چھوڑ دیا گیا جہاں وہ صبر و شکر کرتی اور مصروف عبادت رہتی۔  اس نے ایک دن مرد بزرگ کی جھونپڑی بنانے کے لیے زمین کھودنے کو کہا تو خدا کی قدرت سے ایک مدفون خزانہ مل گیا۔  جس سے اُس نے ایک محل تعمیر کروایا۔  باپ کو معلوم ہوا تو اُس نے توبہ کی اور باپ کے بعد یہی شہزادی جانشین ہوئی۔  میر امن نے اسے نہایت سخی، مہان نواز، سلیقہ شعار، ہوشیار، چالاک، معاملہ فہم، پر تمکنت اور باوقار دکھایا ہے۔  اسی شہزادی کی سخاوت کا شہرہ سن کر پہلا درویش اس کی زیارت کے لیے آیا اور اس کی ایک جھلک دیکھ کر اس پر فریفتہ ہو گیا۔

پہلے درویش کی بہن
میر امن نے اس کردار میں مکمل طور پر ایک مکمل ہندوستانی عورت کی عکاسی کی ہے جو اپنے بھائی کی محبت سے سرشار ہے، اُس کی ہر ممکن مدد کرتی ہے اور جب پہلا درویش سب کچھ لٹا کر اپنی بہن کے پاس آتا ہے تو وہ خوش دلی سے اُس کا استقبال کرتی ہے اور اس کا ہر لحاظ سے خیال رکھتی ہے۔  بعد میں اُس کی بہن اُس کو غیرت بھی دلاتی ہے اور اُسے عمل کی طرف مائل کرتی ہے کہ وہ کب تک ایسے ہی بہن کے ٹکڑوں پر پڑا رہے گا۔  اُسے کچھ کرنا چاہیے۔  اگر دیکھا جائے تو یہ کردار ہندوستانی بہن کی ایک مکمل اور خوبصورت تصویر ہے۔

کٹنی کا کردار
ضمنی کردار ہونے کے باوجود میر امن نے کٹنی کے کردار میں کمال کر دکھایا ہے اور ہمارے سامنے  “بی جمالو”  قسم کی تصویر آنکھوں میں آ جاتی ہے۔  اس کردار کی تصویر کشی کرنے میں میر امن نے نہایت چابکدستی سے کام لیا ہے.

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •