کچھ ہمارے بارے میں

مقام شکر ہے کہ ہم جنوبی پنجاب میں پاکستان کے پہلے آن لائن میگزین کی بنیاد رکھ پائے ہیں۔ ہم نے ایسا کیوں کیا اور اس کا خیال ہمیں کیونکر آیا؟

ہم شاید وہ آخری نسل ہیں جو کتابوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئی۔ ان کتابوں سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم میں سے بہت سوں نے زندگی میں جو کامیابیاں حاصل کیں، بہت حد تک، مطالعے کی اسی عادت کی مرہون منت ہیں تو شاید غلط نہ ہو گا۔

بڑھا دیتی ہیں عمروں کو نہ جانے یہ کتابیں کیوں   

میں چھوٹا تھا مگر سر پر کئی صدیوں کا سایہ تھا

 وہ کتابیں ایک طرف تو ہمیں اپنے ماضی سے جوڑتی تھیں تو دوسری طرف حال کا احوال بھی بتاتی تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مستقبل کے لئے تیار کرتی تھیں۔ اپنی ثقافت، اپنی معاشرت سے آگاہ کرتی تھیں، زبان و بیان کی باریکیاں سکھاتی تھیں، صحت مندانہ تفریح مہیا کرتی تھیں۔ افسوس صد افسوس ٹیکنالوجی کے اس دور میں کتاب کہیں کھو گئی۔  اور اب عالم یہ ہے کہ  آج کی نوجوان نسل ماضی الضمیر کو، کم ازکم اردو کی حدتک، زبانی یا تحریری شکل میں بیان کرنے میں دقت محسوس کرتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ اردو زبان کو اپنی بقا کی جنگ لاحق ہے تو شاید یہ بھی غلط نہ ہو گا۔

اور پھر کتاب کیا ہاتھ سے چھوٹی، ہماری تو معاشرتی و اخلاقی اقدار کا شیرازہ ہی بکھر گیا ہے۔ ہمارا آج کا نوجوان نہ تو اپنی تاریخ سے واقف ہے، نہ ثقافت سے جڑا ہوا، معاشرت کے سبق پڑھتا ہے نہ قومی و بین الاقوامی ادب کے شہ پاروں سے مستفید ہوتا ہے۔ ہاں  انٹرنیٹ تک رسائی ہے اس کی، لیکن جو معلومات انٹرنیٹ پہنچاتا ہے وہ شاید وسیع تو ہیں، گہری نہیں۔ ہمیں اب کتاب اس کے ہاتھ میں دوبارہ تھمانی ہے۔ مطالعے کی عادت پھر سے متعارف کروانی ہے۔

میرا ایک خواب ہے

جب تلک پا نہ لوں

میری جاں کو عذاب ہے

قلم ہے، دوات ہے

ہر بچے کے ہاتھ میں

اک کتاب ہے

اسی ارادے کے ساتھ ہم نے اس آن لائن میگزین کی داغ بیل ڈالی کہ نوجوان کا انٹرنیٹ بھی نہ چھوٹے اور مطالعہ بھی ہوتا رہے۔ گویا، رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

جنوبی پنجاب کے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں مطالعے کی عادت متعارف کروانے اور اسے فروغ دینے کے لئے ہم نے ایک جامع منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ چھٹی جماعت کی سطح پر ہم چار چار بچوں پر مشتمل مطالعاتی حلقے (گروپ) قائم کروا رہے ہیں۔ ہر گروپ کے ایک بچے کو مہینے کی پہلی تاریخ کو بچوں کا ایک معیاری میگزین تھما دیا کریں گے۔ ایک ہفتے کے بعد یہ میگزین دوسرے بچے اور اسی طرح تیسرے اور چوتھے ہفتے میں، تیسرے اور چوتھے بچے کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ان 28 دنوں کے بعد، مہینے کے باقی بچ جانے والے دو تین دنوں میں اردو کا ٹیچر اپنی کلاس میں اس میگزین کی بابت بحث کروائے گا کہ کیا پڑھا، کیا اچھا لگا، کیا اچھا نہیں لگا، کیا نئی بات سیکھی۔ اس بحث و مباحثہ میں شرکت اگرچہ اختیاری ہو گی لیکن اس کا مقصد ایک طرف بچوں میں میگزین کے مطالعے سے حاصل ہونے والے فوائد کو راسخ کرنا ہے تو دوسری طرف غیر محسوس انداز میں ان بچوں کو بھی احساس دلانا اور مطالعے کی طرف مائل کرنا ہو گا کہ جو میگزین پڑھنے میں کوتاہی برتنے کے سبب اس بحث میں یکسر یا خاطر خواہ حصہ نہ لے پائیں گے۔ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جب بچہ یہ میگزین گھر لے کر جائے گا اور اس کا مطالعہ کرے گا تو لامحالہ اس کے دیگر بہن بھائیوں میں بھی اس کو دیکھنے اور پڑھنے کی خواہش بیدار ہو گی۔ گویا ہماری اس کاوش کے نتیجہ میں ہمارے سکول کا بچہ ہی نہیں بلکہ اس کے بہن بھائی بھی فیض پائیں گے۔

جب بچے کو اس بات کا احساس ہو گا کہ یہ میگزین اس کے پاس محض ایک ہفتہ رہے گا اور اس کے بعد کسی دوسرے بچے کے پاس چلا جائے گا اور یہ کہ کلاس کے دیگر بچے بھی اسے پڑھ رہے ہوں گے، تو وہ بچہ میگزین کو گھر لے جا کر اسے ایک طرف رکھنے کے بجائے، اسے پڑھنے کی کوشش کرے گا۔

 چھٹی جماعت کے طلباء و طالبات جب سال بھر مطالعہ کی یہ لازمی سرگرمی کرتے رہیں گے تو ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ان میں سے بہت سوں کو اس کی عادت پڑ جائے  گی اور وہ بعد ازاں بھی اسے قائم رکھیں گے۔

کسی کتاب پر میگزین کو ترجیح دینے کے پیچھے بھی حکمت پوشیدہ ہے۔ اگر آپ کسی کو پہلے پہل مطالعہ کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہماری دانست میں اس مقصد کے لئے کتاب کی نسبت، ایک میگزین زیادہ موزوں ہے کہ وہ رنگا رنگ اور دلکش ہوتا ہے، تحریریں بہت طویل نہیں ہوتیں اور آپ اپنے موڈ، رجحان اور میسر وقت کے مطابق نثر، نظم، لطائف یا کسی دیگر صنف سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمدرد نونہال اور تعلیم و تربیت جیسے میگزین، کاروباری نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ ایک مشنری جذبے کے تحت بچوں کی تربیت کے لئے شروع کئے گئے تھے اوریہ سلسلہ کئی دہائیوں سے آج تک جاری و ساری ہے۔

بات بچوں کے ادب کی ہو اور ذکر نہ آئے حکیم محمد سعید صاحب کا، ایسے تو حالات نہیں۔۔۔

اس فرشتہ صفت انسان نے اس پہلو پر اس قدر توجہ دی کہ اب کوئی اس کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے ہاتھوں میں تو کتاب اور قلم تھمانے والے ہی وہ تھے۔ آج ہم اپنے آن لائن میگزین “روشنی” کو ان سے منسوب کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ان کی خدمات کے مقابلے میں تو یہ محض سورج کو چراغ دکھلانے کے مترادف ہے۔ صرف یہی نہیں، حکیم صاحب ہر ماہ ایک مضمون، ‘جاگو جگاؤ’ لکھتے تھے اور نونہالان وطن کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتے تھے۔ اس قابل تقلید روایت کی یاد میں ہم بھی اپنے اداریہ کو ‘جاگو جگاؤ’ کا عنوان دے رہے ہیں ۔

ہم بچوں کو مطالعے کی طرف تو لا ہی رہے تھے کہ وہ زبان و بیان کی نزاکتوں کو سمجھ سکیں لیکن یہ کلی طور پر اسی وقت ممکن تھا کہ جب ہم ان کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی طرف بھی راغب کر سکیں۔ ہنر سیکھنے کا بہترین طریقہ اسے استعمال کرنا ہے۔ کسی علم پر، کسی ہنر پر عبور اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب آپ اسے عمل میں لائیں، لاکھ صفحے پڑھ لینے سے کہ پانی میں کیسے تیرا جاتا ہے وہ ایک چھلانگ زیادہ سکھلا دیتی ہے جو آپ کسی نہر میں لگاتے ہیں۔ جب لکھنے کے مواقع مہیا کرنے کی بات آئی تو طباعت و اشاعت کی طرف دھیان گیا لیکن پھر فکر لاحق ہوئی ان کے خرچے اور جھنجھٹ تو ایک طرف، چھپا ہوا حرف تو پہلے ہی حالتِ نزع میں ہے۔ اس تناظر میں ہم نے آن لائن میگزین کا ڈول ڈالنے کا فیصلہ کیا اور پھر کمپیوٹر اور موبائل کی اسی سکرین پر کہ جس سے بچہ آنکھ اٹھانے پر آمادہ نہیں ہوتا، یہ میگزین رکھ دیا۔ امید اور دعا ہے کہ وہ اس سے مستفید ہو، اسے پڑھے بھی اور اس کے لئے لکھے بھی۔ 

احتشام انور

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •