آدھی ملاقات

وزیراعظم نے مجھے کھیلتے ہوئے دیکھا اور مسکرا کر کہا

“سمیع اللہ از بیسٹ”

ہاکی کے چار ورلڈ کپس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے عظیم اولمپیئن، فلائنگ ہارس سمیع اللہ خان کا انٹرویو

بڑے لوگوں کی زندگیوں میں ایک مشترک بات ہوتی ہے کہ ان کا اردو  اور فارسی دونوں والا ظرف بہت بڑا اور شفاف ہوتا ہے، اس لیے یہ لوگ بالکل ویسے ہی نظر آتے ہیں جو کہ یہ اصل میں ہوتے ہیں۔ اپنے اسی اصل پر بہت مان کرنے والے ایک سادہ اور شفاف انسان سے ہم نے روشنی میگزین کے لئے آدھی ملاقات مرتب کی ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے بی بی سی اردوسمیت دیگر موقر ویب سائٹس پر ان کے انٹرویوزاور معلومات سے استفادہ کیا ہے۔  جنوبی پنجاب کے شہر بہاول پور سے تعلق رکھنے والے سمیع اللہ خان دنیائے ہاکی کا وہ انمول ہیرا ہیں جن کا متبادل آج تک دنیا پیدا نہیں کر سکی۔ ہاکی میں اپنی مہارت، مشاقی اور برق رفتاری سے انہوں نے نہایت کم عرصے میں شہرت کی ان بلندیوں کو چھو لیا جن تک پہنچنے کے لیے کھلاڑی برس ہا برس تک محنت کرتے رہتے  ہیں  لیکن  پھر بھی اکثریت کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔  ہاکی کے شعبے میں گراں قدر خدمات پر اس عظیم اولمپیئن  کو حکومت پاکستان  نے  نہ صرف صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے اعزاز سے نوازا۔  بلکہ ان کے  آبائی  شہر  بہاول پور میں ان کا مجسمہ نصب کر کے پہلی مرتبہ کسی زندہ پاکستانی کھلاڑی کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا گیا۔

روشنی میگزین:  سر! روشنی میگزین کے لیے  اپنا قیمتی وقت  دینے کا  شکریہ۔  سب سے پہلے آپ اپنے خاندانی پس منظر، تاریخ پیدائش اور تعلیم کے حوالے  سے  ہمارے  قارئین کو آگاہ کیجیے۔

سمیع اللہ خان: پاکستان میں بچوں کے پہلے  ڈیجیٹل میگزین روشنی کے  لیے انٹرویو دینا میرے  لیے خوشی کی  بات ہے۔ میرا خاندان ایتھلیٹکس کیا کرتا تھا۔ میرے دو چچا اولمپیئن مطیع اللہ اور امان اللہ زمانہ طالب علمی میں ایتھلیٹک میٹ میں حصہ لیا کرتے تھے۔ میری پیدائش 6 ستمبر 1951ء کو بہاول پور میں ہوئی۔ ابتدائی  تعلیم بہاول پور میں ہی  حاصل کی۔ جبکہ طالب علمی کا  زمانہ  گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج  اور گورنمنٹ  اسلامیہ  کالج  میں گزرا۔ میرے دو بھائیوں ہدایت اللہ خان اور کلیم اللہ خان نے بھی  ہاکی کے کھیل میں نام  کمایا   اور کئی بین الاقوامی میچز میں  پاکستان  کی نمائندگی کی۔

روشنی میگزین: آپ  کا بچپن کیسے  گزرا؟ سکول اور کالج  کے زمانے میں بھی آپ کو کھیلوں  سے دلچسپی تھی؟

سمیع اللہ خان: بچپن کی سہانی یادوں کو بھلا  کیسے فراموش کیا جا سکتا  ہے۔ میں نے اپنے سکول اور کالج کے زمانے میں ایتھلیٹکس میں باقاعدہ حصہ لیا۔ 1971ء میں مجھے اپنی مادر علمی گورنمنٹ صادق  ایجرٹن کالج بہاول  پور کے بہترین ایتھلیٹ کا اعزاز ملا۔ میرے  ٹیچرنے میرے کھیل کے شوق کو  دیکھتے ہوئے نصیحت کی تھی کہ ہاکی کے  ساتھ  ساتھ اگر  پڑھائی میں بھی محنت کرو گے تو کامیابی تمہارا مقدر بنے گی۔ پڑھائی کو ادھورا چھوڑنے والے یا کم توجہ دینے والے لوگ کسی میدان میں کامیاب نہیں ہوتے۔ میں نے اپنے ٹیچر  کی بات  کو پلے باندھا اور دونوں شعبوں میں محنت  کرنے لگا۔ اس دن کے بعد پھر پیچھے مڑ کر  نہیں دیکھا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ  آج میرا شمار دنیا  کے لیونگ لیجنڈز میں ہوتا  ہے اور مجھے ایک  ہیرو کی حیثیت حاصل ہے۔

روشنی میگزین: سر! ‘فلائنگ ہارس’  کا  خطاب کس طرح آپ کے نام کا  حصہ بنا؟

سمیع اللہ خان: یہ سن  1975 ء کا  ذکر ہے۔  ملائیشیا میں منعقدہ تیسرے عالمی ہاکی کپ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں فقیدالمثال کامیابی کے اگلے دن اختر رسول میرے کمرے میں آئے۔  ان کے ہاتھ میں چند اخبارات تھے، انہوں نے ازراہ تفنن کہا کہ لگتا ہے کہ یہ اخبار والے سب تمہارے دوست ہیں جنہوں  نے تمہاری اتنی زیادہ تعریفیں لکھی ہیں۔ ایک جرمن فوٹو گرافر نے میرے کھیلنے کی دس تصاویر ایک ترتیب سے بنائی تھیں تاکہ وہ شائقین کو یہ بتا سکیں کہ گیند کے ساتھ میری موومنٹ کس طرح رہتی ہے۔ انہی  خبروں میں جرمن  ہاکی ٹیم کے کوچ پال لیزیک کا بیان بھی شامل تھا جنہوں نے کہا تھا کہ سمیع اللہ فلائنگ ہارس نے ہماری ٹیم کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ یہی وہ پہلا موقع تھا جب مجھے کسی نے  ‘فلائنگ ہارس’  کے نام سے پکارا جو بعدازاں میرے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔

روشنی میگزین: سر! 1975ء کے اس  تیسرے عالمی  کپ کا کوئی ایک خوش گوار واقعہ جسے اب تک آپ فراموش نہ کر پائے ہوں؟

 سمیع اللہ  خان: ایک کھلاڑی کے لیے اس کی زندگی کا ہر میچ ہی اس کے لیے کسی نہ کسی حوالے سے یادگار ہوتا  ہے۔ سن 1975 میں ملائیشیا میں منعقدہ تیسرے عالمی ہاکی کپ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پاکستان اور جرمنی کا میونخ اولمپکس کے بعد یہ پہلا مقابلہ تھا۔ اس میچ میں ہماری ٹیم نے جرمنی کو ایک کے مقابلے میں پانچ گول سے آؤٹ کلاس کیا۔ ہماری ٹیم کی اس یکطرفہ جیت میں ایک کھلاڑی کے طور  پر میرا  کردار سب سے نمایاں اور یاد گار رہا۔ جسے  پاکستان کے  ساتھ  ساتھ  دنیا  بھر میں ہاکی شائقین کی  طرف سے  سراہا  گیا۔ اس میچ میں نہ  صرف یہ  کہ میں نے دو گول کیے تھے بلکہ میچ میں ہماری  ٹیم کی جانب سے کیے جانے والے دیگر تین گول بھی میری ہی کوششوں کے نتیجے میں ہوئے۔ میری اسی کارکردگی کے نتیجے  میں ہی جرمن ہاکی  ٹیم کے کوچ نے مجھے فلائنگ ہارس کا خطاب دیا، جس کا  ذکر میں پہلے کر چکا ہوں۔

روشنی میگزین: غالباً اسی عالمی  ہاکی کپ ٹورنامنٹ میں ایک  حادثہ  بھی آپ کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کی  تفصیل سے ہمارے قارئین  کو آگاہ  کریں گے؟

سمیع  اللہ  خان: جی بالکل! اسی ورلڈ کپ کے فائنل میں انڈین ہاف بیک وریندر سنگھ کی سٹک اپنے پاؤں میں پھنسنے کی وجہ سے میں گر گیا تھا اور میری ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، جس  کے باعث مجھے تین ماہ ہاکی سے دور رہنا پڑا تھا۔

روشنی میگزین: آپ کو اپنے کیریئر پر سب سے زیادہ کس شخص کا اثر نظر آتا ہے؟

سمیع اللہ خان: میرے  چچا مطیع اللہ خان مجھے پچاس میٹر اور پھر سو میٹر کی سپرنٹ لگوایا کرتے تھے۔  وہ جب بھی پریکٹس کے لیے جاتے تھے میں ان کے ساتھ جایا کرتا تھا اور دیکھا کرتا تھا کہ وہ کس طرح ہٹ لگاتے ہیں اور کس طرح گیند روکتے ہیں۔  وہ کہتے تھے کہ تم اس وقت تک اچھے کھلاڑی نہیں بن سکتے جب تک صحیح طریقے سے گیند نہ روک سکو۔ میرے  چچا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ  مڑے  بغیر کراس لگاتے تھے اور گیند پنالٹی سٹروک کے نشان اور گول کیپر کے درمیان میں جایا کرتی تھی، یہی خوبی بعد میں میرے کھیل کا حصہ بنی۔

روشنی میگزین: پاکستان میں ہاکی کے کھیل کو عروج تک پہنچانے والوں میں مطیع اللہ خان کے کردار کو نہیں بھلایا جا سکتا، لیکن ہماری  نئی نسل ہاکی کے  حوالے سے ان کی خدمات  سے ناواقف ہے۔ اپنے چچا مطیع اللہ خان صاحب کے حوالے سے مزید  کچھ بتائیے۔

سمیع اللہ خان: میرے چچا مطیع اللہ خان نے سن 1956ء، 1960ء اور 1964ء کے تین اولمپکس مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جن میں ایک گولڈ میڈل اور دو سلور میڈل حاصل کیے۔ جبکہ وہ دو ایشیائی کھیلوں میں طلائی تمغہ جیتنے والی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔  حکومت پاکستان نے ہاکی میں ان کی خدمات کے  اعتراف میں 1963ء میں انہیں تمغہ امتیاز  سے نوازا۔  جبکہ بہاول پور کے ہاکی سٹیڈیم کو  بھی مطیع اللہ خان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہاں یہ  بات بھی  قابل  ذکر ہے کہ 1960ء کے روم اولمپکس میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے فائنل جیت کر اولمپکس مقابلوں میں انڈیا کی 32 سالہ بالادستی کا خاتمہ  کر دیا  تھا۔ جیت کے بعد پاکستانی ٹیم جب وطن واپس آئی تو صدر جنرل ایوب خان نے کراچی میں فاتح ٹیم کو مدعو کیا۔ اسی ملاقات میں انہوں نے ہاکی کو قومی کھیل کا درجہ دینے کا باقاعدہ اعلان کیا۔

روشنی میگزین: سر! ہاکی میں مہارت حاصل کرنے میں اور کون سی  شخصیات کا تعاون آپ کو حاصل رہا؟

سمیع اللہ خان:  جب میں نے ہاکی کھیلنی شروع کی تو نبی کیلاٹ مرحوم اور سابق اولمپیئن سعید انور صاحب نے مجھے مہارت سکھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمہاری رفتار بہت تیز ہے،  لہذا تمہارے ساتھ اگر کوئی ہاف  بیک بھاگتا  آ  رہا ہو تو تم فوراً  کوشش کرو کہ اسے  اپنے پیچھے لے آؤ۔  میں نے ان کی باتوں پر عمل کیا اور اپنی سپیڈ سے فائدہ اٹھایا۔ ان دونوں کے علاوہ شہناز شیخ  صاحب تھے۔ شہناز شیخ ڈربلنگ بہت کرتے تھے لیکن وہ جارحانہ انداز نہیں رکھتے تھے۔  میں نے یہ انداز دکھایا کہ جیسے ہی پچیس گز کے اندر جاتا تھا  فوراًً کٹ اِن  کرتا تھا۔

روشنی میگزین: ایک قومی ہیرو کے طور پر عام طبقے  نے تو آپ کو  محبت اور احترام سے نواز  کر آپ کو سر آنکھوں پر بٹھایا، لیکن کیا    پاکستان  کے کسی حکمران نے بھی ذاتی طور پر آ کر آپ کی خدمات کا اعتراف اور پذیرائی کی؟

سمیع  اللہ  خان! جی! مجھے وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب سن 1974 کے ایشین گیمز کا ٹریننگ کیمپ حسن ابدال میں لگا ہوا تھا اور وزیر اعظم  ذوالفقار علی بھٹو خاص طور پر یہ دیکھنے آئے تھے کہ اچھا کھلاڑی کون ہے؟ میں یا صفدر عباس؟ دراصل بھٹو صاحب کو عبدالحفیظ پیرزادہ نے بتا رکھا تھا کہ صفدر عباس بہترین لیفٹ آؤٹ ہے۔ پیر زادہ صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ میں بہاول پور کا ہوں اور پی ایچ ایف کے صدر صادق حسین قریشی ملتان کے ہیں لہذا پسند ناپسند ہو رہی ہے۔ جب بھٹو صاحب نے کیمپ میں مجھے کھیلتے ہوئے دیکھا تو جاتے جاتے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے ازرائے مذاق کہنے لگے ‘پیرزادہ!  تم ہمیشہ مس گائیڈ کرتے ہو۔ سمیع اللہ از بیسٹ’۔ ساتھ  ہی انہوں نے مجھ سے کہا ‘ویل ڈن بوائے’۔

روشنی  میگزین: جیسا کہ آپ اپنے   دو بھائیوں ہدایت اللہ  خان اور کلیم اللہ  خان کے حوالے سے ہمیں  بتا چکے ہیں کہ وہ بھی پاکستان کی  قومی ہاکی ٹیم میں شامل رہے۔ بطور کھلاڑی ان کے کھیل کو آپ کس نظر  سے دیکھتے ہیں؟

سمیع اللہ خان:  ہدایت اللہ  صاحب   عمر میں  مجھ سے دو سال بڑے  تھے۔ سن 1973 ء کے عالمی کپ میں ہم دونوں ٹیم  میں  شامل  تھے اور میچز کھیلے۔ اس عالمی کپ میں وہ لیفٹ آؤٹ تھے جبکہ  میں لیفٹ ان کھیل رہا تھا۔ چھوٹے  بھائی  کلیم اللہ   ابتدا میں سینٹر ہاف کھیلا کرتے تھے لیکن جب بریگیڈیئر عاطف اور سعید انور نے ان کی پوزیشن رائٹ ہاف کرنے کی کوشش کی تو میں نے ان سے کافی بحث کی کہ انہیں کسی دوسری پوزیشن پر کھلایا جائے۔ اس گفتگو میں ایئرمارشل نور خان بھی شامل تھے۔ بالآخر کلیم اللہ کو اصلاح الدین کی ریٹائرمنٹ کے بعد رائٹ آؤٹ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ کلیم اللہ کے پاس سپیڈ بھی تھی اور ان کے کھیل میں ورائٹی بھی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں  منظور جونیئر جیسا بہترین رائٹ ان بھی ملا جو انہیں  گیند بنا کر دیا کرتا تھا۔ سب کو یاد  ہو گا کہ جب میں لیفٹ آؤٹ اور کلیم اللہ رائٹ آؤٹ کھیلا کرتے تھے تو ہم بہت انٹرچینج کرتے تھے۔  ہم دونوں میں بہت ہم آہنگی تھی۔  یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک مشہور فقرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے کہ  ‘سمیع اللہ سے کلیم اللہ۔ کلیم اللہ سے سمیع اللہ۔ یہ دونوں ہی آپس میں کھیلے جا رہے ہیں’۔

روشنی  میگزین: آپ نے کتنے عالمی کپس میں پاکستان کی نمائندگی کی؟ 

سمیع اللہ خان: میں نے چار ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی، جن میں سے سن 1978 اور 1982 کے عالمی کپ پاکستان نے جیتے۔ اللہ  تعالیٰ  کے  فضل  و کرم سے یہ اعزاز بھی مجھے حاصل ہے کہ میں نے چاروں ورلڈ کپ مقابلوں میں گول کیے۔

روشنی میگزین: آپ نے عالمی کپ  کے علاوہ ہاکی کے اور کون کون سے عالمی مقابلوں میں شرکت کی؟

سمیع  اللہ خان: میں دو چمپیئنز ٹرافی اور تین ایشین گیمز جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں بھی شامل رہا۔ میں 1982ء میں ایشین گیمز جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھا جس نے فائنل میں انڈیا کو ایک کے مقابلے میں سات گول سے شکست دی تھی۔ یہ وہی میچ ہے جس میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی سے دلبرداشتہ ہو کر میچ ادھورا چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔

روشنی میگزین: سرکاری سطح پر  آپ کو کون سے اعزازات سے نوازا گیا؟

سمیع اللہ خان: 14 اگست 1983ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء  الحق  نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔

روشنی میگزین: بہاول پور کی  انتظامیہ کی طرف سے ہاکی کے شعبے میں آپ کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں  چند ماہ قبل آپ کا مجسمہ  بھی تو ایک چوراہے پر  نصب کیا  گیا تھا؟

سمیع  اللہ خان:  جی بالکل! بہاول پور کے علاقے ماڈل ٹاؤن اے میں میری  رہائش گاہ  کے قریب چوراہے پر   میرا مجسمہ  نصب کیا  گیا تھا۔ کنٹونمنٹ بورڈ بہاول پور کی طرف  سے نصب ہونے والے میرے   مجسمے کی خوبصورتی اور یادگار کو ہاکی جیسے کھیل کی نسبت دینے کے لیے اس مجسمے کو ہاتھ میں ہاکی پکڑے بال کے ساتھ دکھایا گیا تاکہ نوجوان نسل پاکستان کے قومی کھیل اور قومی ہیرو کی پہچان کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ کو بھی جان سکیں۔  اسے کنٹونمنٹ بورڈ کے ہی ایک ملازم تنویر نے ڈیزائن کیا اور ایک ماہ کے عرصے میں بنایا۔  اس کی تیاری میں فائبر کا استعمال کیا گیا اور  نیچے کا پلیٹ فارم لوہے سے تیار کیا گیا۔ مجسمے  پر میری شرٹ کا نمبر 11 بھی لکھا گیا۔ لیکن ان سب اعزازات سے بڑھ کر میرے لیے عوام کی محبت ہی میرے  لیے  سرمایہ  افتخار ہے۔

روشنی میگزین: محکمہ تعلیم جنوبی  پنجاب کے زیر اہتمام سکول ہاکی لیگ  کے انعقاد کے حوالے سے آپ کے کیا خیالات ہیں؟

سمیع اللہ خان:  سکول کی سطح پر قومی  کھیل ہاکی کی بحالی  کے ساتھ  ساتھ  طلبہ میں کھیلوں کے شوق کو پروان چڑھانے اور ان میں نظم و ضبط، سپورٹس مین سپرٹ پیدا کرنے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی نرسری تیار کرنے کے لئے سکول ہاکی لیگ  کا انعقاد ایک خوش آئند بات ہے۔

روشنی میگزین: پاکستان کی نئی نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

سمیع  اللہ خان: میرا بچوں کے  لیے  یہ  پیغام ہے کہ  وہ ہمیشہ  سچ بولنے کی عادت کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔  ہر چیز میں میانہ روی کا دامن تھامے رکھیں۔ والدین  کا کہنا مانیں ۔ نماز پڑھیں اور پڑھائی اور کھیل  دونوں میں دل لگا کر محنت کریں۔ اس سے نہ صرف دنیا بلکہ آخرت میں بھی کامیابی ملے گی۔

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •