
باتوں سے خوشبو آئے
٭اگر آپ زندگی میں اچھا انسان بننا چاہتے ہیں تو اپنے دل میں انسانیت کے لیے محبت پیدا کیجیے۔
٭جیسا سوچیں گے ویسا بنیں گے ، آپ کے خیالات ہی آپ کی تقدیر ہیں۔
٭مایوسی ایک دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کوبھی جلاکر رکھ دیتی ہے۔
حکایاتِ سعدی
٭وہ دُشمن جو بظاہر دوست ہو اُس کے دانتوں کا زخم زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
٭اگرچہ معاف کردینا ایک اچھا فعل ہے لیکن لوگوں کو ستانے والے کے زخم پرمرہم نہ رکھیں۔
سنہرے قول
٭جس کا دل خوف سے خالی ہو اس کا گھر رحمتوں سے نہیں بھر سکتا ۔
٭اپنا غم سوچ سمجھ کر با نٹنا چاہیے ،دنیا میں ہمدرد کم اور سر درد زیادہ ملتے ہیں۔
٭کڑوی زبان والے کا شہد بھی نہیں بکتا ، میٹھی زبان والے کا زہر بھی بک جاتا ہے۔
٭سب سے زیادہ جاہل وہ ہے جو گناہ سے باخبر ہوتے ہوئے بھی گناہ کر جائے ۔
سنہری باتیں
٭اند ھیرے کو روشنی میں بد لنےکے لئے روشنی کی ایک ننھی سی کرن ہی کا فی ہوتی ہےاور ہو سکتا ہےوہ کرن آپ ہوں۔
٭زندگی میں اتنی محنت کیجیے کہ آپ کی تقدیر بھی آپ کی سوچ کی پیروی کرے۔
٭دشمن کے دل کو مہربانی سے جیتیں اور دوست کا دل نیک سلوک سے۔
٭سب سے بڑی دولت عقل ہے اور سب سے بڑی مفلسی بے وقوفی ہے۔
٭غصہ آپ کو کمزور بنا دیتا ہے اور آپ کی کمزوری دوسروں کو طاقت ور بنا دیتی ہے۔
٭آدمی پہاڑ سے گر کر اٹھ جاتا ہے مگر نظر سے گر کر نہیں۔
٭آپ لوگوں کے لئے اتنے نرم نہ بنیں کہ لوگ آپ کو نچوڑ دیں اور اتنے سخت بھی نہ بنیں کہ وہ آپ کو توڑ دیں۔
٭بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے دل میں اتر کر اس کے دکھ کا اندازہ کر سکے۔
مطالعہ سے کیا ملتا ہے؟
٭مطالعہ انسان کے لئے اخلاق کا معیار ہے۔(علامہ اقبالؒ)
٭ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔(امام غزالیؒ)
٭ تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ (حکیم ابو نصر فارابی ؒ)
٭ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اورمطالعے کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کے لئے۔ (ایڈیسن)
٭ مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ (بیکن)
٭مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے۔ (سمر سٹ ماہم)
٭ تین دن بغیر مطالعہ گزار لینے کے بعد چوتھے روز گفتگو میں پھیکا پن آجاتا ہے۔(چینی ضرب المثل)
٭انسان قدرتی مناظر اورکتابوں کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ (سسرو)
٭ مطالعے کی بدولت ایک طرف تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا اوردوسری طرف تمہاری شخصیت دلچسپ بن جائے گی۔ (وائٹی)
٭دماغ کے لئے مطالعے کی وہی اہمیت ہے جو کنول کے لئے پانی کی۔ (تلسی داس)
٭مطالعہ کسی سے اختلاف کرنے یا فصیح زبان میں گفتگو کرنے کی غرض سے نہ کرو بلکہ ”تولنے“ اور”سوچنے“کی خاطر کرو۔ (بیکن)
٭جس طرح کئی قسم کے بیج کی کاشت کرنے سے زمین زرخیز ہو جاتی ہے، اسی طرح مختلف عنوانات پر کتابوں اوررسالوں وغیرہ کا مطالعہ انسان کے دماغ کو منور بنادیتا ہے۔ (ملٹن)
٭ جو نوجوان ایمانداری سے کچھ وقت مطالعے میں صرف کرتا ہے، تو اسے اپنے نتائج کے بارے میں بالکل متفکر نہ ہونا چاہئے۔ (ولیم جیمز)
٭ مطالعے سے خلوت میں خوشی، تقریر میں زیبائش، ترتیب وتدوین میں استعداد اور تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ (بیکن)
٭ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں (میکالے)
٭ مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اوراس کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ (شیلے)
٭ دنیا میں ایک باعزت اورذی علم قوم بننے کے لئے مطالعہ ضروری ہے،مطالعہ میں جو ہر انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے۔ (موہن داس کرم چندگاندھی)
٭ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کتابوں کے مطالعے نے انسان کے مستقبل کو بنادیا ہے۔ (جیفر سن)
٭ تم مطالعہ اس لئے کرو کہ دل ودماغ کو عمدہ خیالات سے معمور کر سکونہ کہ اس طمع سے کہ تھیلیاں روپوں سے بھر پور ہوں۔ (سینکا)
مہکتے لفظ
٭اللہ کے نز دیک سب سے عظیم وہی ہیں جودوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔
٭اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرو اس سے تمہارے سب کام اچھے ہو جائیں گے۔
٭خوبصورتی حسن میں نہیں بلکہ اچھے اخلاق میں ہوتی ہے۔
٭دشمن ایک بھی بہت اور دوست زیادہ بھی کم ہیں۔
واہ کیا بات ہے
٭ایک ہی شخص آپ کی زندگی بدل سکتا ہےاور وہ صرف اور صرف آپ خود ہی ہیں۔
٭ہم ہر دن کو یاد نہیں رکھ سکتے لیکن ہمیں اپنے اچھے اور برے دن ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔
اقوال سعدی
٭موتی اگر کیچڑ میں بھی گر جائے تو بھی قیمتی ہے اور گرد اگر آسمان پر بھی چرھ جائے تو بھی بے قیمتی ہے۔
٭اگرچہ انسان کو مقدرسے زیادہ رزق نہیں ملتا لیکن رزق کی تلاش میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔
٭آدمی کے علم کا اندازہ تو ایک دن میں ہو جاتا ہے لیکن نفس کی خباثت کا پتا برسوں میں بھی نہیں چلتا۔
٭تعلیم انسان کو بولنا سکھاتی ہےمگر یہ نہیں سکھاتی کہ کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔
٭اپنے حصے کا کام کیے بغیر دعا پر بھروسہ کرنا حماقت ہے اور اپنی محنت پر بھروسہ کرکے کے دعا نہ کرنا تکبر کہلاتا ہے۔