تحریر: رفیق مزاری (روجھان)
نصاب کو انگریزی میں کورس کہا جاتا ہے ۔نصاب یا کورس کے لئے انگریزی میں مترادف لفظ کریکولم ہے جس کا لغوی معنی گھوڑوں کے دوڑانے کا متعین کردہ راستہ ہے۔ کیونکہ ریس کورس کی طرح نصاب تعلیمی ادارے میں تعلیمی سرگرمیوں کا تعین کرتا ہے۔ یوں نصاب مختلف موضوعات اور سرگرمیوں کا مجموعہ ہوتا ہے جسے ایک مخصوص وقت میں مکمل کرنا ہوتا ہے۔ نصاب یا کریکولم ایک ایسے سانچے کی مانند ہوتا ہے جس میں آنے والی نسلوں کو ڈھال کر عملی و قومی زندگی میں خدمات سرانجام دینے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ شخصیت سازی میں نصاب کی اہمیت ہر دور میں اہم ہے۔ گو کہ انسانی کردار کی تشکیل اور تعمیر، گھر اور معاشرے سے شروع ہو جاتی ہے لیکن استاد کا علمی تجربہ، شخصیت ، ادارے کا ماحول اور سلیبس اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچپن اور سکول کی سطح تک طلبہ کا ذہن ایک ایسے صاف کاغذ کی مانند ہوتا ہے جس پر ایسے نقش و نگار بنا دیےجائیں کہ وہ ساری زندگی کے لئے مفید ہوں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق انسانی شخصیت کی تشکیل پندرہ سال کی عمر تک ہوتی ہے۔ بقایا زندگی تقریباً ویسی ہی رہتی ہے جیسی اس کی تربیت کی جاتی ہے۔ اگر بچوں میں بچپن ہی سے سچ بولنے، برائیوں سے بچنے، چوری اور دھوکے دہی سے دور رہنے کی عادت پڑ جائے تو وہ تقریباً ساری زندگی ان اصولوں پر گزار دیتا ہے۔ البتہ اس کا ذہنی معیار تعلیم کے حصول اور زندگی کے تجربات و مشاہدات کے ساتھ ترقی پاتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین تعلیم انسان کی کردار سازی میں سکول کی سطح کو فیصلہ کن اہمیت دیتے ہیں ۔اسی کے پیش نظر ترقی یافتہ ممالک میں سکول کے نصاب میں اخلاقی اصولوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضروریات کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔
سکول کے نصاب اور تربیتی سرگرمیوں میں بچوں کو نظم و ضبط، قانون کے احترام ، اخلاقی اقدار، حسن سلوک، دوسروں کے حقوق، سچائی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ نصاب میں صفائی ستھرائی، فضائی آلودگی وغیرہ جیسے مضامین پر بھی مواد شامل کیا جاتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں یہ کام قدرے آسان ہے کیونکہ ہم سکولوں کی نصابی کتب میں اسوہ حسنہ سے واقعات منتخب کر کے شامل کر سکتے ہیں جن سے بچوں میں اخلاقی اقدار بھی پروان چڑھیں گی اور مذہب سے وابستگی بھی قائم ہو گی۔ مطلب یہ کہ بچپن ہی سے بچوں میں سچائی، ایمانداری اور حب الوطنی پیدا کرنے کے لئے نصاب کو ان خطوط پر تیار کیا جائے تاکہ پاکستان کی آئندہ نسلیں کردار کے حوالے سے معزز ٹھہریں۔ مغربی ممالک کو ہم برائی کے مراکز قرار دیتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان ممالک میں جھوٹ، ملاوٹ، دھوکہ دہی، چوری چکاری، فراڈ، باہمی نفرتیں اور سینہ زوری، ہمارے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ان ممالک میں جہاں اکثر آپ کو حسن اخلاق ملے گا وہاں ہر طرف نظم و ضبط اور قانون کا احترام کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ یہ صرف سکول کے نصاب کا ہی کرشمہ نہیں بلکہ گھریلو اور معاشرتی تربیت کی دین بھی ہے اور اس میں استاد بنیادی کردار سرانجام دیتا ہے۔
اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے علاوہ نصاب کا اہم ترین کردار طلبہ کو معیاری اور کار آمد تعلیم دینا ہے تاکہ سکول، کالج اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر وہ قومی زندگی اور قومی ترقی میں حصہ ڈال سکیں۔ وہ اعلیٰ درجے کے سائنس دان، اکانومسٹ، انجینئر، ڈاکٹر، بزنس مین، استاد، صنعت کار، سیاسی رہنما اور سول و ملٹری آفیسر بنیں۔ ان میں مطالعے، تحقیق اور غور و فکر کی صلاحیت پیدا ہو۔ ان میں اختراع اور نئی نئی راہیں ڈھونڈنے کے ساتھ ایجادات کی صلاحیت پیدا ہو۔ نصاب عالمی سطح کا ہو تاکہ ہمارے فارغ التحصیل طلباء دوسرے ممالک کے ساتھ مقابلے میں پیچھے نہ رہیں اور ان کو عالمی رینکنگ کی یونیورسٹیوں میں داخلے مل سکیں۔
قیام پاکستان کے وقت ہمیں برطانوی حکمرانوں سے جو تعلیمی ڈھانچہ اور نصاب ملا وہ اخلاقی اور مذہبی حوالے سے تو ہمارے تقاضے پورے نہیں کرتا تھا مگر ریاضی، سائنس ، انگریزی اور سوشل سٹڈیز وغیرہ میں ترقی یافتہ ممالک کے تقریباً ہم پلہ تھا۔ چنانچہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بیس بائیس سال بعد تک ہمارے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ کو ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیوں میں براہ راست انہی کلاسز یا درجوں میں داخلہ ملتا تھا لیکن پھر ہم تعلیمی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ کیونکہ دنیا بھر میں تعلیم کے شعبے میں نئی نئی تکنیک متعارف کروائی گئیں۔ امتحانات کا انداز بدل گیا اور صرف رٹے کے بجائے مضامین کی صحیح تفہیم اور طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے امتحان پر زور دیا جانے لگا۔ حتیٰ کہ امتحانی سوالات کی شکل بھی بدل دی گئی۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر آزادانہ بحث و مناظرے، تحقیق، تخلیقی سرگرمیوں پر زور دیا جانے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکہ اور برطانیہ سمیت ترقی یافتہ ممالک کی یونیورسٹیاں نئی نئی ایجادات اور ریسرچ میں آگے آگے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ان کو ریسرچ کے لئے فنڈز دیتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یونیورسٹیوں کی کامیابی کی بڑی وجہ جہاں نصاب کا اعلیٰ معیار ہے وہاں اساتذہ کا اپنا اعلیٰ علمی معیار، ریسرچ کروانے کی صلاحیت اور یونیورسٹیوں کا سازگار ماحول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے ادارے سازشوں، دھڑے بندیوں اور جہالت کے مراکز بن چکے ہیں۔ تحقیق کا رجحان زوال پذیر ہے اور ماحول حوصلہ شکن۔ اول تو نصاب کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ کرنا اور ہر سال اس پر نظرثانی کر کے عالمی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ جب تک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں علمی اور ریسرچ کا ماحول پیدا نہیں کیا جاتا اس وقت تک محض نصاب کا اعلیٰ معیار قومی مقاصد پورے نہیں کرے گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے اساتذہ غیر ممالک سے پی ایچ ڈی کر کے واپس آتے ہیں تو یہاں آنے کے بعد ان میں ریسرچ کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ جب تک بیرون ملک ہوتے ہیں تحقیقی مضامین بھی لکھتے ہیں، تازہ کتابیں بھی پڑھتے ہیں لیکن واپس آتے ہی نقل کا کاروبار کرنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ریسرچ کی سہولیات کا فقدان اور منفی ماحول ہے۔ جب تک ان علمی عوارض کا علاج نہیں کیا جاتا محض نصاب بدلنے سے مقصد پورا نہیں ہو گا۔ لیکن نصاب کو دنیا کے برابر لانا بہرحال ناگزیر ہے۔ ورنہ ہمارے طلبہ کو بیرون ممالک تعلیم کے ماحول میں حد درجہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں تعلیم نجی شعبے اور سرکاری شعبے کے نصاب، معیارِ تعلیم اور ماحول میں نمایاں فرق ہے۔ علاوہ ازیں سینکڑوں مدرسوں میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبہ کا سلیبس بھی موجودہ تعلیمی معیار سے ہم آہنگ نہیں۔ کیونکہ مدارس میں سائنس، حساب ، معاشیات اور ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے مضامین نہیں پڑھائے جاتے اور نہ ان کے پاس ایسے اساتذہ اور تجربہ گاہیں موجود ہیں۔
قوم کو باطنی اور ذہنی طور پر ایک قوم بنانے اور قومی کردار کی تعمیر کرنے کے لئے ایک جیسا نصاب ضروری ہے جو ایک جیسی سوچ پیدا کرے۔ اخلاقی تربیت کی ضمانت دے اور جس کا سائنسی معیار ترقی یافتہ ممالک کے برابر ہو۔ اس سلسلے میں موجودہ حکومت کی یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے کوششیں قابل تحسین ہیں۔ مسلسل جدوجہد کے بعد آخر کار حکومت یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے اور اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ 2021 سے پورے ملک میں پرائمری کی سطح پر یکساں نصاب نافد کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح 2022 میں ایلمنٹری اور 2023 میں سکنڈری سطح پر یکساں نصاب تعلیم پورے ملک میں نافدالعمل ہو گا، جس پر پورے ملک میں سرکاری پرائیویٹ اور دینی مدارس عمل کرنے کے پابند ہوں۔ امید کی جاتی ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کے ذریعے وطن عزیز میں تمام بچوں کو یکساں تعلیم اور اس کے ثمرات سے حاصل کرنے کے مواقع ملیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے یہ عمل خوش آئند ثابت ہو گا۔