تحریر: محمد سلیم جاوید (میاں چنوں)

خو ش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جن کی کسی ادا، بات، لفظ، حرکت، عبادت، ریا ضت، مجا ہدے یا دعا سے خالقِ کائنات راضی ہو جاتا ہے اور پھر اس کے دل کو اپنی محبت سے بھر دیتا ہے۔ جب کسی انسان کے دل و دماغ میں خدا کی محبت کا شگوفہ کھِلتا ہے تو اسے کائنات میں بکھرے ہو ئے مناظر میں صرف اور صرف مالک کائنات ہی نظر آتا ہے۔ بلا شبہ کائنات میں ہر طرف حسن بکھرا پڑا ہے۔ یہ مسکراتے پھول اور ستارے، گنگناتی ہوئی ہوائیں، مست گھٹائیں، لہراتی ہوئی بجلیاں، پہا ڑوں سے پھو ٹتے چشمے اور جھرنے، پہاڑوں سے گرتی ہوئی آبشاریں، گا تی ہوئی ندیاں، میٹھی دل آویز چاندنی، سنہری دھوپ، خمار آلود شامیں، یہ درخت باغات بارش، اڑتے سرمئی بادل، چار سو جلوے ہی جلوے، نغمے ہی نغمے، کائنات میں ہر وقت رنگ و نور کی برسات جاری رہتی ہے۔ قوسِ قزح کے رنگ، کہکشاں کی روشنی، آسمان، چاند تارے ہر منظر خدا کے وجود کی گوا ہی دیتا ہے۔

ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ ان میں بلا کی لطا فت اور پیچیدگی پائی جا تی ہے۔ وہیل مچھلی کے صرف ایک بال تک غذا پہنچانے کے لیے چار سو نسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ انسانی دماغ کروڑوں اعصابی خلیوں کا مرکب ہے۔ خدائے واحد کی بڑی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایسی باریک مکھیاں بھی نظر آتی ہیں جو اتنی ننھی اور چھوٹی ہوتی ہیں کہ ان کے پر سر اور پاؤں تک دکھائی نہیں دیتے لیکن وہ اپنی ذات میں مکمل ہوتی ہیں۔ اس خالقِ عظیم کی عظمت ملاحظہ ہو کہ اس نے ان کی باریک ٹانگیں اور پر بنانے کے لیے کون سا طریقہ استعمال کیا ہے۔ اگر انسان اپنے جسم پر ہی غور کر لے تو خدا کے آگے سجدہ ریز ہو جا ئے۔ ہم جب قدم اٹھا تے ہیں تو ایک ٹانگ جسم کا سہارا دیتی ہے اور دوسری آگے بڑھتی ہے۔ اس چھوٹے سے عمل میں تقریبا ایک سو آٹھ پٹھے کام کر تے ہیں لیکن اس خدا کی تخلیق پر حیران جائیں کہ ہمیں بالکل بھی احساس نہیں ہوتا کہ کب پٹھے مڑے، پھیلے اور سکڑے۔

ہمارا جسم ایک مشین کی طرح کام کرتا ہے۔ ہما رے جسم کے تمام اعضا ایک دوسرے کے ساتھ مکمل تعاون کر تے ہیں۔ انسان کی بتائی مشین نہ تو اپنی دیکھ بھال اور نہ ہی اپنی مرمت کرتی ہے لیکن حیوانی مشین اپنی مرمت اور دیکھ بھال خود بخود کرتی رہتی ہے۔ یہ روزِ اول سے مادے کو توانائی میں اور توانائی کو مادے میں خود ہی کر رہی ہے۔ اس میں ہماری کوئی کوشش نہیں ہے۔ جب بھی کوئی وائرس یا جراثیم ہمارے اندر چلا جاتا ہے تو ہمارا دفاعی نظام اس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ زخم اور ہڈی اگر ٹوٹ جا تے ہیں تو خود ہی مرمت اور ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ خو ن اگر بہہ نکلے تو خود ہی جمنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم کے سارے اندرونی نظام خود بخود ہی کام کر تے رہتے ہیں۔

جب ہم جاندار اشیا کا مطالعہ کر تے ہیں تو ہمیں حیرت انگیز منظر اور پلان نظر آتا ہے۔ ہر جاندار ماحول کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ کچھ جانور ایسے ہیں جو صرف خشکی پر زندہ رہ سکتے ہیں۔ کچھ ہوا میں، کچھ کھارے پانی میں، کچھ میٹھے پانی میں۔ مچھلی کی ایک قسم سمندر کی گہرائیوں میں رہتی ہے جہاں روشنی نہیں پہنچ سکتی۔ کچھ جانور صرف برفوں میں ہی رہ سکتے ہیں۔ کچھ آگ برساتے صحراؤں میں، کچھ پہاڑوں کی بلندیوں پر۔ قدرت نے ان جانوروں کی حفاظت کا بھی شاندار خودکار نظام وضع کر رکھا ہے جو جانور جس ماحول میں رہتا ہے اسے وہی رنگ عطا کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ نظر نہ آ سکے۔

کائنات کا آپس کا باہمی تعلق بھی کیا خو ب ہے۔ پودوں کا انحصار زمین کی زرخیزی ہے تو حیوانات کا پودوں پر۔ باغ میں کوئی پھول اس وقت تک نہیں کھل سکتا اور پھل میں شیرینی نہیں آ سکتی جب تک ستاروں کی شعاؤں سے مستفیض نہ ہوں۔ انسان کے معمولات پر اگر غور کریں تو خدا یاد آجا تا ہے۔ انسان نے اپنے کاموں کے لیے مختلف لیور بنائے۔ کنویں سے پانی نکالنے کے لیے چرکھڑی، زمین جو تنے کے لیے ہل بنایا۔ کدال درانتی بیلچہ، اس قسم کا نظام انسانی جسم میں بھی ہے۔ مثلا ایک لیور سر اٹھا نے اور جھکا نے کے لیے، دوسرا بدن کو سہارا دینے اور تیسرا اشیا کو اٹھانے کے لیے اور آپ دیکھیں جسم کے ہر جوڑ پر قبضے لگا دئیے جا تے ہیں۔ ہمارے کندھوں گھٹنوں ٹخنوں کلائیوں کہنیوں اور کمر کو مضبوط قبضوں نے جکڑ رکھا ہے۔ بدن میں باریک نالیوں کا جال بچھا ہوا ہے اور جابجا والو لگے ہو ئے ہیں۔

کمال کی تخلیق ملاحظہ ہو کہ ہوا غذا کی نالیوں میں نہیں جا سکتی اور نہ غذا ہوا کی نالی میں۔ اِس طرح کے والو شریانوں میں بھی موجود ہیں۔ ہما رے جوڑوں کو تیل دینے کا بھی فطری نظام موجود ہے۔ دانت میں خون کی سپلائی کا نظام کتنا حیرت انگیز ہے۔ آنکھ اور کان کی ساخت دیکھ کر تو انسان سجدہ ریز ہو جا تا ہے۔ اس خدا کی خالقیت کو دیکھ کر اور خالق عظیم کی ثنا پر مجبور ہو جا تا ہے۔ اب خدا کو نہ ماننے والوں سے یہ سادہ سا سوال ہے کہ کیا حیوانی جسم کی مشینیں مثلا کان آنکھ زبان معدہ جگر دل پھیپھڑے کیا کسی خالق کے بغیر ہی تخلیق پا گئے ہیں؟ کیا اتنی کامیاب اور بھر پور مشینوں کی تخلیق کے لیے اعلی درجے کا علم اور دما غ نہیں چاہیے تھا؟ اگر ہم یہ مان لیں کہ آنکھ کان ایک خودکار نظام سے حرکت کرتے ہیں تو پہلا سوا ل یہ اٹھے گا کہ اس خود کار نظام یا مشین کا خالق کون ہے؟ وہ رب ہے۔ اِس کائنا ت کا اکلوتا وارث۔

جب آپ خدا کی تخلیقات کی طرف دیکھتے ہیں تو حیران ہو جا تے ہیں کہ آپ کے اطراف میں کروڑوں مشین یوں چل رہی ہیں کہ کہیں سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکلتی۔ آپ کسی پھول کے پودے کو دیکھیں۔ کس طرح پھو ل اپنے تخلیقی مراحل سے گزرتا ہے۔ آپ آم کے درخت کو دیکھیں جو ایک مکمل فیکٹری سے جس میں پتے شاخیں ہیں۔ جڑوں میں پہلے بور آتا ہے جو امبیوں میں ڈھلتا ہے اور امبیاں آم کی شکل میں۔ آم میں دنیا کا بہترین ذائقہ۔ گھٹلی مٹھاس، خوشبو اور لذیذ ترین رس پایا جا تا ہے۔ اگر آپ کو کوئی جوس کی بوتل بنانی یا بھرنی ہو تو کئی مشینیں کام کرتی ہیں جبکہ آپ خدا کی مشینوں کو دیکھیں کس طرح خاموشی، ادب اور پراسرار طریقے سے کام کر رہی ہیں کہ کو ئی شور نہیں، کو ئی آواز نہیں۔

اگر قدرت کی بنائی مشینوں سے آوازیں نکلتیں تو یہ زمین رہنے کے قابل نہ رہتی۔ جس طرح دھماکوں زلزلوں ٹرین کے آنے سے انسان جانور دور بھا گ جاتے ہیں، اسی طرح قدرتی مشینوں کے شور سے بھی انسان بھاگ جا تے۔ ان قدرتی مشینوں کی خاموشی اس خالقِ عظیم کے بے پناہ علم کا ثبو ت ہے۔ کسی میں اتنی ہمت اور علم نہیں کہ وہ ان درختوں اور پودوں کی گنتی کر سکے۔ یہ با ت تو طے ہے کہ کا ئنات کا نظام جو نہایت باقاعدگی سے چل رہا ہے، اس میں کہیں کوئی خرابی خامی نہیں آتی تو اس کو کون چلا رہا ہے؟ ہاں پس پردے کے پیچھے کون ہے اِس کانپتی لرزتی کائنا ت کو جس غیرمرئی ہاتھ نے چابکدستی سے تھام رکھا ہے وہی خدا ہے۔ اس کائنات کا حقیقی اور اکلوتا وارث ۔

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
205
4