تحریر: ڈاکٹر احسان گوندل (مظفر گڑھ)
باتوں سے پیٹ بھرتا ہے نہ پانی کے بلبلے کی طرح بننے اور مٹنے والے جذبات ہماری معیشت کا متبادل ہو سکتے ہیں۔ گیس، بجلی اور پانی کے بلز، رہائش کے اخراجات، بچوں کی فیس اور علاج معالجے سے لے کر خوشی، غمی اور آمدورفت تک کی ذاتی، خاندانی اور اجتماعی معاشیات میں جذبات کا کوئی تعلق نہیں۔ زندہ رہنا ہے تو زندگی کے یہ سارے لوازمات ضروری ہیں۔
شعور کا پرزہ قدرت نے ہر ایک انسان کے دماغ میں فٹ کر کے بھیجا ہے۔ اب اس کا استعمال تو انسانی صوابدید پر ہے جو سوچنے کے عمل کا محتاج ہے اور ہم بچوں کو مدرسوں، سکولوں، عبادت گاہوں اور درس گاہوں میں پڑھا، سکھا اور سمجھا رہے ہیں کہ سوال نہیں کرنا، سوچنا نہیں، خبردار سوچ فکر اور سوال پر پابندی ہے۔ اب سوچ پر پہرے تو بٹھائے جا سکتے ہیں لیکن انسان کے اندر سے خود اس کے ہی خلاف ایک بغاوت جنم لیتی ہے اور یہی وہ بغاوت ہے جو یہاں درد اور کرب میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس درد کی لذت کا اثر دائمی ہے اور یہی دائمی بیماری ہمیں بھی دام خیال میں الجھائے پھرتی ہے۔ کبھی قلم سے اور کبھی زبان سے چیختے اور چلاتے پھر رہے ہیں کہ اے ساکنان خطہ حسرت ویاس! شعور کو بیدار کرو، اپنی شناخت کرو، تم بول سکتے ہو، حرکت کر سکتے ہو، پھر تبدیلی بھی لا سکتے ہو اور یہی اصول رائج الوقت ہے۔ لہذا جذبات سے باہر آ کر سوچیں اور تبدیلی کے راستے پر گامزن ہو جائیں۔
منزل تو پہلے ہی متعین ہے اور وہ ہے انسانوں کی معاشرت میں انسانوں کی طرح زندہ رہنا۔ آسودگی، امن اور بھائی چارے کے ساتھ فتوؤں کی دکان سے زندگی کا سودا نہیں ملتا۔ کرہ ارض پر لاکھوں سال سے قائم درس گاہوں نے انسانوں کو آسودگی، ترقی اور روٹی نہیں دی۔ یہ مسلم سائنس اور ٹیکنالوجی تھی جس نے انسانیت کو جانوروں سے بلند درجہ کر کے ممتاز کیا جبکہ پنڈتوں، پادریوں اور دیوی دیوتاؤں کے پجاریوں نے قدم قدم پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی مخالفت کی۔ سقراط کے ساتھ کیا ہوا؟ گلیلیو کے ساتھ کیا ہوا؟ نیوٹن سے کیا سلوک کیاگیا؟ آئن سٹائن نے کیا کچھ کیا؟ یہ سب سقراط سے گلیلیو تک اور ڈارون سے ہیکل تک کی جدوجہد تسلسل کا آئینہ ہے۔ خدا کے لیے ہوش کریں اور اس آئینے میں اپنی شکل کا جائزہ لیں کہ کیا ہم واقعی انسان ہیں؟
جذبات کے بلبلوں پر سمندروں کا سفر نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کاغذ کی کشتیاں بھی کنارے لگتی ہیں۔ اللہ کے تمام تر برگزیدہ بندے بھی کھانا کھاتے تھے۔ کپڑے پہنتے تھے۔ مکانوں میں رہتے تھے اور علاج معالجے سے لے کر سماجی امور تک سرانجام دیتے تھے۔ کام کرتے تھے۔ تجارت کر تے تھے۔ حکمرانی کر تے تھے اس لیے کہ زندگی اور معیشت لازم ملزوم ہیں۔