تحریر: وحید احمد (میاں چنوں)
دنیا میں وہ اقوام اپنے علم و فن کی بنیاد پر ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا کتاب اور قلم ہتھیار ہوتاہے۔ جو اقوام تعلیم کو پسِ پشت ڈال دیتی ہیں اور کتاب سے رشتہ توڑ لیتی ہیں وہ نہ تو ترقی یافتہ اقوام کا مقابلہ کر پاتی ہیں اور نہ ہی ترقی اور فِکر و فن کی منازل طے کر پاتی ہیں۔ وہ اقوام جو سائنسی علوم اور ایجادات میں روز افزوں ترقی کر رہی ہیں ان کی اس ترقی میں لائبریریوں کا کلیدی کردار ہے۔
دنیا میں ایک باعزت اور ذی علم قوم بننے کے لیے مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ علم صرف نصابی کتب کے رٹ لینے یا امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبر حاصل کر لینے کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے عمیق مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے اچھی کتب کا پڑھنا ازحد ضروری ہے جو صرف لائبریریوں میں ہی موجود ہوتی ہیں۔ لائبریریاں تشنگانِ علم کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔
لائبریری اصل میں انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اردو زبان میں انگریزی سے ماخوذ ہے اور اصل معنی اور حالت میں عربی رسم الخط کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ لائبریری، کتب خانہ، دارالکتب یا مکتبہ ایک ایسی جگہ یا مقام ہے جہاں ان قارئین کے لیے کتابی اور غیر کتابی مواد منظم طور پر مہیا کیا جاتا ہے جو مالی یا دوسری وجوہات کی بنا پر کتابیں خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ لائبریری کا مقصد اپنے صارفین کو اہم تاریخی دستاویز اور معلومات تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ جدید لائبریریوں میں انٹرنیٹ، تصاویر، ویڈیوز، میوزک ریکارڈز، کمپیوٹر ڈسکس، سی ڈیز اور ویڈیو کیسٹ ریکارڈرز تک رسائی ہو سکتی ہیں۔
ہمارے ملک میں طلباء و طالبات اور اساتذہ کرام میں مطالعہ کو فروغ دینا ازحد ضروری ہے تا کہ مثبت تنقیدی سوچ رکھنے والی قوم تشکیل پا سکے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب لائبریریوں کو فعال کیا جائے۔ مطالعہ یا کتب بینی کا طلبہ کی شخصیت پر انتہائی مثبت اثر پڑتا ہے۔ جو بچے زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں ان کی سوچ میں وسعت آتی ہے۔ وہ حالات و واقعات کو ایک مختلف نظر سے دیکھتے ہیں اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ جو طلبہ لائبریری میں پلے بڑھے ہوتے ہیں ان کا علم اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
کہنے کو تو پاکستان میں ہزاروں لائبریریاں ہیں لیکن ان میں سے بیشتر صرف اکیڈمک لائبریریز ہیں یعنی وہ لائبریریاں جو تعلیمی اداروں میں قائم ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ لائبریری علم کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے گورنمنٹ سکولوں میں لائبریریاں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں لائبریری کے مسائل میں سے سب سے اہم مسئلہ بجٹ کا ہے۔ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے اور تشنگانِ علم کی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بہترین کتب کا لائبریری میں موجود ہونا ازحد ضروری ہے اور یہ بجٹ کے بغیر ممکن نہیں۔ گورنمنٹ سکولوں میں لائبریری کا بجٹ یا تو انتہائی کم ہے یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اس کے برعکس پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں لائبریری اور کتب بینی کے فروغ کے لیے باقاعدہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔
لائبریری کی عمارت لائبریری ماہرین کے مشورے سے بنائی جاتی ہے جس میں ہوا کی آمدورفت اور قدرتی روشنی کا مناسب انتظام ہوتا ہے جبکہ گورنمنٹ سکولوں میں اس مقصد کے لیے سب سے تنگ اور تاریک کمرے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ایسے کمرے میں دن کے وقت بھی داخل ہوں تو گھٹن اور سیلن زدہ ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکول لائبریریز پراجیکٹ اور گورنمنٹ کی طرف سے مہیا کی جانے والی انتہائی قیمتی کتب کو انتہائی بے دردی اور بے ترتیبی کے ساتھ نمدار الماریوں یا لوہے کی شیلفوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے اور اس کمرے کو مستقل طور پر مقفل رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی کی انتہا تو یہ ہے کہ بہت سارے گورنمنٹ سکولوں میں سوائے لائبریری انچارج کے، سالوں سے تدریس کا فریضہ نبھانے والے معزز اساتذہ کرام کو بھی اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ ان کے سکول میں لائبریری بھی موجود ہے۔ طلباء و طالبات کو لائبریری کی موجودگی کا علم کیسے ہو گا؟
لائبریری کا انچارج ایسے اساتذہ کرام کو بنایا جانا چاہیے جو نہ صرف خود بھی مطالعہ کے شوقین ہوں بلکہ طلباء و طالبات کو بھی کتب بینی کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ بدقسمتی سے بیشتر گورنمنٹ سکولوں میں لائبریری کا چارج ان کو دے دیا جاتا ہے جن کو کتب کے ساتھ کوئی انسیت ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ مطالعہ کے شوقین ہوتے ہیں جس وجہ سے ان سکولوں میں لائبریریاں ہمیشہ مقفل ہی رہتیں ہیں۔
کتابیں بچوں کی سوچ اور انداز فکر میں وسعتِ نظر پیدا کرتی ہیں اس لیے کتب بینی کی اہمیت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں، بقول شاعر
کتابیں سچی ساتھی ہیں نہ ان سے ناطہ تم توڑو
کہیں یہ کھو ہی نہ جائیں انہیں تنہا نہ تم چھوڑو
کتابیں راہیں دکھلائیں ہمیں منزل کو پانے کی
کتابیں باتیں کرتی ہیں ہمارا جی بہلانے کی
مطالعہ کے فروغ کے لیے سکولوں میں لائبریریوں کی حالتِ زار کو بہتر کرنے کی ازحد ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں سکولوں کے سربراہان کے ساتھ ساتھ اربابِ اختیار کی توجہ بھی لازم و ملزوم ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلباء و طالبات میں تخلیقی صلاحیتیں نکھارنے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی لیول پر کتب بینی کو فروغ دیا جائے تا کہ نوجوان نسل تحریر و تحقیق کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے اورہمارا ملک ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو سکے۔