تحریر: مسز قدسیہ یوسف (چشتیاں)
میں لائبریری کی ایک کتاب ہوں۔ میرا نام کلیات اقبال ہے۔ میں مفکر پاکستان، عظیم شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کے عمدہ خیالات کی خوب صورت تصویر ہوں۔ مجھے لاہور کے ایک مشہور ناشر نے چھاپ کر اپنی دکان کی زینت بنایا۔ بہت سے لوگ آتے رہے اور بہت سی کتابیں خریدتے رہے۔ مگر میں کسی کی نگاہ انتخاب میں نہ آئی۔ آخرکار ایک دن ایسا بھی آیا کہ ایک شخص نے علامہ اقبال کی تصانیف خریدیں اور ساتھ مجھے بھی خرید لیا۔ پھر اس نے مجھے ایک الماری میں سجا دیا۔ جہاں میری بہت سی دوسری بہنیں بھی موجود تھیں۔ مگر کسی میں بھی مجھ جیسی چمک نہ تھی۔ میں دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ میرے حسن کے سامنے سب ماند پڑ گئی تھیں۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ایک لائبریری ہے۔ کیونکہ میرے ماتھے پر ایک مہر لگا دی گئی تھی اور مجھ پر ایک نمبر لکھ کر ایک رجسٹر میں میرا اندراج بھی کیا گیا تھا۔ ایک دن ایک نوجوان آیا۔ اس نے اپنے نام سے میرا اندراج کروایا اور مجھے پڑھنا شروع کر دیا۔ چونکہ میرا ہر لفظ دل میں اترنے والا تھا اور ہر شعر جامع تھا، اس لیے وہ جگہ جگہ مجھ پر نشانات لگاتا رہا۔ یہ چیز میرے لئے انتہائی ناگوار تھی۔ مگر میری فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ وہ مجھے پنسل کی نوک سے زخمی کرتا رہا۔ لاپروائی سے کھولتا اور بند کرتا تھا۔ اس نے مجھے اس قدر لا پروائی سے استعمال کیا کہ میرا سر ورق پھٹ گیا۔ کچھ ہی دنوں میں میرا حسن ماند پڑ گیا۔ لیکن میں کیا کر سکتی تھی۔ جہاں گل ہوتے ہیں وہاں خار تو ہوتے ہی ہیں۔
خیر کچھ دن بعد اس نے مجھے اسی جگہ پر لا کر رکھ دیا، جہاں سے وہ لے کر گیا تھا۔ کچھ دن کے بعد ایک مہذب انسان آیا۔ اس نے مجھے اٹھایا، اپنے نام سے میرا اجراء کروایا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ ایک استاد تھا اور اس نے نہایت محبت کے ساتھ مجھے پڑھا۔ اس کی صحبت میں مجھے انتہائی سکون ملا۔ وہ اپنے شاگردوں کو میرے اشعار پڑھ کر سناتا۔ میرے اشعار اپنے اندر بصیرت اور ہدایت کا خزانہ لئے ہوئے تھے۔ اس نے کچھ دنوں کے بعد مجھے واپس میری جگہ پر رکھ دیا۔ اس عرصے نے میری خوش گوار یادوں میں اضافہ کیا۔ اس کے بعد ایک دن پھر ایک نوجوان آیا۔ اس نے جھٹکے سے مجھے الماری سے اٹھایا۔ اس کا یہ طرز عمل مجھے بہت برا لگا۔ اس نے اپنی چند پسندیدہ نظمیں قینچی سے کاٹ لیں۔ اس کا یہ ظلم و ستم مجھ سے برداشت نہ ہوا۔ مگر میری آہ و فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ لائبریری کے انچارج نے بغیر دیکھے ہی مجھے واپس اسی حالت میں الماری میں رکھ دیا۔ جب بھی مجھے اپنا شاندار ماضی یاد آتا ہے، میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اب آہستہ آہستہ میرے صفحات اکھڑنے لگے تھے۔ میری صورت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی۔ لوگ میری طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ کچھ سالوں بعد جب پرانی اور پھٹی کتابوں کی چھانٹی کی گئی تو مجھے بھی دوسری ساتھیوں کے ساتھ ایک کباڑیے کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔ اس شخص نے مجھے ایک سڑک کے کنارے زمین پر سجا دیا۔ میں اس وقت اس شعر کی تفسیر بنی بیٹھی ہوں
پُر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے