ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

تحریر: احسن علی اسلام (بہاول نگر)

میں آٹھویں جماعت کا طالب علم ہوں۔ میرے والد محترم کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ہراتوار کے دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ قریبی گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتا ہوں۔ میرے والد محترم صبح کی نماز کے وقت مجھے جگاتے ہیں۔ وضو کرکے نماز ادا کرتا ہوں۔ تلاوت قرآن پاک کے بعد ورزش کر کے غسل کرتا ہوں۔ ناشتہ کرنے کے بعد والدین کی اجازت سے گراؤنڈ کی طرف چلا جاتا ہوں۔ اس اتوار کو حسب معمول گراؤنڈ کی طرف جا رہا تھا ۔ میں نے بمشکل ایک فرلانگ فاصلہ ہی طے کیا ہو گاکہ راستے میں ایک چھوٹا بچہ رو رہا تھا۔ میں نے بچے سے اس کا نام پو چھا تو وہ اور زور سے رونے لگا ۔ میں نے دوبارہ اس کا نام پوچھا ۔ بچے نے اپنا نام مدثر حسین بتایا۔میں نے بچے کو اٹھایا اور قریبی مسجد کے مولوی صاحب سے اعلان کرنے کے لیے کہا۔ مسجد میں اعلان ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری کہ ایک عورت دوڑتی اور روتی ہو ئی آئی ۔ بچہ ماں کو دیکھ کر خوش ہوا ۔ ماں نے اپنے بچے کو پیار سے گلے لگایا اور اس کے منہ پر بوسہ دیا۔ عورت نے مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ عورت نے بتایا کہ میرا خاوند صبح سویرے کام پہ چلا جاتا ہے۔ اس کی بہن سکول میں پڑھتی ہے۔ جونہی میں گھر کے کام میں مصروف ہوئی ، یہ اپنی بہن کو تلاش کرنے گھر سے نکل پڑا۔ میں کھیلنے کی بجائے گھر واپس چلا گیا اور اپنی والدہ صاحبہ کو سارا ماجرا سنایا ۔ ان کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے ۔ انہوں نے مجھے شاباش دی اور مجھے یہ شعر سنایا۔
اپنے لئے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

شیئر کریں
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
724
3