تحریر: اقصیٰ شفیق ملک (اوچ شریف)
یہ گزشتہ سال کا واقعہ ہے۔ سردیوں کی آمد آمد تھی۔ امی جان نے ایک رات ہم سے چھپ کر گاجر کا حلوہ تیار کیا مگر ہوم ورک کرتے ہوئے گاجر کے حلوے کی خوشبو ہمارے ان دو نتھنوں سے ٹکرا گئی جنھیں عرف عام میں ہماری امی جان بلی کے نتھنے کہا کرتی ہیں۔ اس بھینی بھینی خوشبو سے ہمارا دماغ شریف معطر ہو گیا۔ ہم فوراً اٹھے اور کمرے سے جھانک کر دیکھا تو امی جان گاجر کے حلوے کو فریج میں قید کر کے باورچی خانے سے نکل رہی تھیں اور چابی ان کے ہاتھ میں تھی۔ ہم فوراً کمرے کی طرف بھاگے اور جلدی سے بستہ کھول کر بیٹھ گئے۔ اتنے میں امی جان کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں، ارے تم ابھی تک پڑھ رہی ہو۔ اب بس کرو اور کھانا کھا لو۔ جج۔۔۔۔ جی امی جان، ہم نے منمناتی ہوئی آواز میں کہا کہ کہیں ہمارا راز فاش نہ ہو جائے۔ ہھر ہم نے جلدی سے بستہ بند کیا اور کھانے کے لیے آ گئے مگر ہمارا دل تو حلوے میں اٹکا ہوا تھا۔ اس کے بعد ہم سونے کے لیے کمرے میں آ گئے مگر نیند کہاں۔ آدھی رات کے وقت ہم چوروں کی طرح اٹھے۔ پہلے کمرے کی لائٹ جلائی اور بزدلوں کی طرح دبے پاؤں باہر نکل آئے۔ سب آرام فرما رہے تھے۔ ہم آہستگی سے امی جان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ چپکے سے میز پر سے چابی اٹھائی اور باورچی خانے کا دروازہ کھول کر لائٹ جلائی۔ کانپتے ہاتھوں سے چابی گھما کر فریج کھولی۔ سامنے ہی گاجر کے حلوے کی ڈش پڑی تھی۔ ہم نے بڑھ کر ندیدوں کی طرح اسے دونوں ہاتھوں سے یوں تھام لیا جیسے گر پڑے گی۔ فریج بند کر کے اطمینان سے ہم گاجر کا حلوہ کھانے لگے۔ جی بھر کے کھایا۔ ابھی برتن خالی ہی ہوا تھا کہ پیچھے سے ہمارے سر پر جوتا پڑا۔ پیچھے مڑ کر جو دیکھا تو امی جان تھیں اور اس کے بعد تو ہم پر جوتوں کی موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ پھر ہم وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔